اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی جاری اختیار اور ایچ سی کو ہٹائے جانے کے سماعت کے دوران ریمارکس کہا ہے ن ا ہے
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ ہم یہ کہ طارق قابلیت رکھتے تھے یا نہیں, حکومت طارق بنوری کو قابلیت معاملے پر نہیں ہمارے سامنے صرف یہ ہے کہ آرڈیننس قانونی ہے یا نہیں, 89 کے تحت دیکھنا ہے کہ آرڈیننس کس صورت حال میں جاری ہو سکتا ہے ۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن 2 سال بعد ہیں, الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا آرڈیننس پہلے آ گیا مشینیں بھی, اگر آرڈیننس ایکٹ آف پارلیمنٹ بن پاتا تو مشینیں خریدنے گئے تھے, آرڈیننس تو تب ہے جب فوری طور پر کوئی حکم نافذ کرنا ہو اور پارلیمنٹ کا سیشن نہ ہو رہا ہو۔
عدالت نے کہا کہ کوئی ایمرجنسی نہ ہو تو صدر کو آرڈیننس کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کا سیشن سیشن باہےو، ن سن سیشون باہےو، کن سن سن رب باہےوضن سن سن رب بلا کن سن سن بریں باووقن سن سن بر ایک دن ایگزیکٹو کو خیال آئے کہ ہائی کورٹ میں 9 نہیں 2 جج چاہئیں تو کیا آرڈیننس سے ایسا کر لیں گے؟ ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی ہائی کورٹ کی طرح ہی اہم ادارہ ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج سیلاب ہے یا ہو جائے تو آرڈیننس آ سکتا میں فوری نیوع میں فوری نیوع ا ل
عدالتِ عالیہ نے استفسار کیا کہ ایچ ای سی جیسے معاملات پر کیا امر مانع تھا پارلیمنٹ کا سیشن بلانے میں؟ وفاق کا یہ کیس ہی نہیں کہ چیئرمین ایچ ای سی قابلیت نہیں رکھتے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان پر کوئی الزام نہیں لگایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومت کو ایچ ای سی کو قابلیت نہ کا اختیار دیتا ہے ، کیس میں ااومت س میں حکاومت ا ا سیر ن
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کر کے ان سے معاملے کاو ڈسکس کیا جارا س ا اری کرن ر لئے ر
مسلم لیگ نون کے سابق وزیر احسن اقبال روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے احسن اقبال سے استفسار کیا کہ آپ جب حکومت میں تھے تو کتنے آرڈیننس جاری کیئے گئے؟
احسن اقبال نے جواب دیا کہ اگر ہم نے بھی غلط کیا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔
چیف ج
عدالتِ عالیہ نے کیس کی مزید سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی۔