عیدالاضحی ہو یا عیدالفطر یہ دونوں تہوار پاکستان میں ایک زمانے میں بغیر نئی فلم کے مانانے مویکر ان نو م ّر خاص نںور تپر خا نںور تپر خاص نںور تپر خاص نںور تپر خاص نںور تپر خاص نںور تپر خاص نںو ب اس وقت 1964 ء میں بنائی جانے والی ایک عیدالاضحی کی یادوں کے دریچے سے پاکستان میں بننے والی پہلہیںم کمال رن سنت تلم رن نت کلم رن نت کلم جمعرات 23 / اپریل 1964 ء کی عیدالاضحی کا ذکر ہے, جب قوم قربانی کے فریضہ کو انجام دے رہی عید پر یہ فلم ہوئی, سابقہ مشرقی پاکستان فلم تیکنیک کے دور پہلی سینما اسکوپ فلم کا تجربہ بھی انہوں نے ہی کیا. پاکستان میں سنگم سے قبل کلر فلم کے تجربے چند فلموں میں صرف کی حد تک رہے ، اس حوالے سے یہ مکمل پہل۔ل ت لی کلر ل۔ل تر
اس فلم کی شوٹنگ کے لیے مشرقی افتاد جنگل, ایسی نامعلوم ندیوں اور آبشاروں انتخاب کیا, جن سے لوگ واقف تھے, ٹرکس اور کے اندر کئی کئی دور کے پہاڑی علاقے پہلی بار اس فلم میں دکھائے گئے. ایسے ایسے بلند قامت پہاڑ جہاں پر چڑھنا اور اُترنا بے حد مشکل تھا اور جہاں کوئی مشکلاےت اورر دیگا رن در خطرن سن ت تھر ان علاقوں میں خطرناک درندے اور زہریلے سانپ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ اس فلم کی شوٹنگ میں دو سو سے زیادہ ایکسٹرا اداکاروں کو شامل کیا گیا۔ نمایاں اداکاروں کی تعداد پچاس کےلگ بھگ تھی اور دیگر افراد کے ساتھ تقریباً پانچ سو کے لھےوگ اس فلم کے ی ن م ل

فلم کی شوٹنگ کے دوران دو بار شدید سائیکلون آیا ، جس سے یونٹ بے حد پریشانی ہوئی ، ہر باجر لیںپبا نے مشکلوگبا نے بے مشکل ظہیر ریحان نہ صرف اس فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار تھے ، بلکہ وہ اس فلم کے رائٹر بھی تھے۔ ایک انوکھی اور چونکا دینے والی کہانی میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے انہوں نے اسے کلر میں فلمائی۔ کہانی تحریر کرتے وقت اس بات کو بھی ذہن میں رکھا کہ رنگین فلم میں مکمل طور پر ککااف۔و ، ایڈٹوار و ، ایڈچونچر سویو معل سوےم اٹونچر ، سوےو مع
اس فلم میں جن اداکاروں نے نمایاں کردار نگاری کی۔ اُن میں فلم کی ہیروئن سمیتا دیوی اور ہیرو خلیل کے ساتھ ہارون اور روزی کے کردار بڑے اہم تھے۔ یہ کہانی دو دوستوں کی ایثار و قربانی کےگرد گھومتی ہے۔ ایک ہندو شنکر (خلیل) اور دُوسرا شاہد (ہارون) ، دونوں کی مثالی دوستی نے فلم میں جابمجا خکیےتا و د ل
شنکر ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا تھا ، جہاں سیر و تفریح کے لیے کالج کے لڑکے اور لڑکیاں آتے ہیں۔ اس علاقے میں ایک ہوٹل ہے ، جس کی مالکہ رانی سرکار ہے ، جو شنکر کی والدہ تھی۔ شیلا (سمیتادیوی) جو شنکر سے محبت کرتی ہے۔ اسی پہاڑ پر شیلا کا بھی ایک ہوٹل ہے ، جس کا مالک اُس کا چچا ہے۔ شنکر کی ماں اور شیلا کے چچا دونوں میں کاروباری رقابت ہے۔ شیلا کا چچا اُس کی شادی ایک عیاش اور شرابی شخص (بدرالدین) سے کرنا چاہتا ہے۔
شہر سے کالج کے طالب علم شاہد (ہارون) کی قیادت میں اس سیاحتی مقام پر پکنک منانے آتے ہیں۔ طالب علموں کے پروفیسر صمدانی ایک خبط الحواس شخص ہے ، جو لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ہوٹل میں ٹھہرانے کی مخالفت کرت ا شنکر کے ہوٹل میں لڑکے ٹھہراتے ہیں اور شیلا کے ہوٹل میں لڑکیوں کے قیام کا انتظام ہو جاتا ہے۔ اس پہاڑ پر شاہد کی ملاقات اپنے پرانے دوست شنکر سے ہوتی ہے۔ شنکر ، شاہد کو شیلا کے بارے میں بتایا ہے ، شنکر کے ہوٹل میں قیام پذیر ایک لڑکی نشاط (روزی) سے ایک اراز ششوت م م پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگتے ہیں۔
ہرمد (بدرالدین) ایک شرابی شخص ہے ، جو شیلا کے ہوٹل میں ملازم ہوتا ہے اور شیلا پر بُری نظر رکھتا ہے۔ پکنک منانے والے گروپ میں جنیفر ، نامی ایک عیسائی لڑکی بھی ہوتی ہے ، جو کے کمار سے محبت کرتی ہے۔ شاہد اپنے دوست شنکر اور شیلا کی شادی کرانے کے لیے ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ ایک روز شرابی ہرمد شیلا کے چچا کو اس بات پر راضی کر ہے کہ وہ شیلا کی شادی اُس سے کر دے گا۔ ہرمد اور شیلا کی شادی کی خبر شنکر پر بجلی بن کر گرتی ہے۔ شاہد کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ اس شادی کو رُکوانے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک اسکیم بناتا ہے۔
شیلا کا باپ جو جنگلات میں واقع ایک مندر میں بدھوئوں کا بھکشو اُسے لایا جائے تا کہ وہ اپہنی بیٹیا شیلا ور ور س ر ی شاہد ، نشاط ، رُخسانہ ، یعقوب ، جنیفر ، کے کمار اور شنکر تمام لوگ ایک کشتی سوار ہو کر بہھہوئوں وا وئوکی کی خوا ہرمد کو ان کی پلاننگ کا علم ہو جاتا ہے اور وہ کشتی کو چند ٹکے دے کر کشتی کو ڈبونے کا کہتا ہے۔
رات کو کشتی ڈبو دی جاتی ہے۔ تمام لوگ تتّر بتّر ہو جاتے ہیں۔ نشاط پانی میں لاپتہ ہو جاتی ہے۔ شنکر اور شاہد نشاط کو تلاش کرتے ہیں مگر وہ ملتی, لہریں نشاط کو ایک کنارے دیتی ہیں, جہاں جنگلی قبیلے اسے ایک مندر میں اور ایک بڑے کے سامنے بھینٹ کی تیاری کرتے شنکر اور شاہد وہاں مندر میں پہنچ کر اسے جنگلیوں سے بچانے کے لیے آتے ہیں۔ شنکر نشاط کو بچانے کے جنگلیوں کے تیر کا نشانہ بن جاتا ہے۔ شاہد کے ساتھی مل جاتے ہیں, یہ لوگ شنکر لاتے ہیں, شیلا ہرمد سے شادی نہ کے لیے زہر کھانے لیتی ہے, لیکن عین جب وہ تو پتہ چلتا ہے شنکر آگیا, وہ خوشی سے بھاگتی ہے, لیکن جب شنکر کی لاش دیکھتی ہے, تو گم سم کھڑی کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے۔
اُس کا باپ اُسے زنجیروں میں باندھ کر ہوٹل کے ایک کمرے میں بند کر دیتا ہے۔ وہ اکثر راتوں کو بین کرتی ہے ، چیختی اور چلّاتی ہے۔ اُس کی آواز بھی پہاڑوں سے ٹکراتی ہے ، چار سال واقعہ کو بیت جاتے ہیں ، ہوٹل میں ایک ط نشاط اور شاہد بھی شیلا سے ملنے آتے ہیں ، جن کی شادی ہو چکی تھی۔ ایک روز شیلا زنجیریں توڑ کر بھاگتی ہے اور ہرمد سے انتقام لے کر اُسے ہلاک کر دیتی ہے۔ ہرمد اس پر خنجر کا وار کرتا ہے۔ یہ سنگم کی کہانی جو فلش ٹیگ میں بیان کی جاتی ہے۔
ظہیر ریحان نے اپنی اس تصنیف میں بھارت کے اس پروپیگنڈے توڑ جواب دیا, جو اس نے پاکستان میں ہندو اقلیت ذہنوں وہاں کے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش سنگم میں ایک مسلمان اپنے ہندو دوست شنکر اور شیلا کے لیے اپنی کی بازی لگا دیتا ہے ، تو شنکر بھی اپنی دوستی جان دے کر اَمر کر دیتا ہے۔ جنیفر ، فیرینا ، مہدی اور مورین عیسائی لڑکیوں نے اپنے مسلم دوستوں کے ساتھ دُکھ سُکھ نبھانے کے اعہیںل نمونے پیش نمونے پیش دراصل طالب علم کا یہ گروپ جس میں مسلم ، ہندو اورعیسائی ، بدھشٹ شامل ہے ، ایک ہی خاندان کی مل جل کر رہتے ۔ل کر رہتے ۔ل کر رہتے ل کر رہتے
فلم کے موسیقار خان عطاء الرحمن نے بنگالی کے گیتوں اور کلاسیک دھنوں میں جدید کا رنگ نہایت سے کر کے قدیم ایسٹرن کو جدید ویسٹرن کے ہم فلم میں کل چھ گانے شامل کے گئے, جن میں سب سے مقبول گانا؎. ” ہزار سال کا بڈھا مر گیا دھوم دھام سے اُسے کرو کرو ”۔ اس مقبول عام گیت کو بشیر احمد اور محبوب رحمٰن دیگر ساتھیوں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔