اردو املا کے ضمن میں جہاں کئی اختلافات ہیں وہاں ہمزہ (ء) کا استعمال بھی بعض اوقات اختلاف کا سبب بن جاتا ہےبب بن جاتا اس ضمن میں چند گزارشات مختصرا ً پیش ہیں:
٭٭… ہمزہ کی حیثیت
ہمزہ (ء) ایک باقاعدہ حرف ِ تہجی ہے لیکن بارے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ہمزہ کوئی حرف ِ تہجی ہے بلکہ محض ایک علمت ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عربی کے اٹھائیس حروف ِ تہجی میں ہمزہ (بظاہر) شامل نہیں ہے۔ لیکن ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمزہ دراصل الف ہی ہے۔ اردو لغت بورڈ کی لغت کی پہلی جلد میں الف کے تعارف میں لکھا ہے کہ ” متحرک الف کو عربی میں ہمزہ کہتے ہیں ”۔
٭٭… ہمزہ کا اردو میں استعمال
ہمزہ کے استعمال کے ضمن میں بعض اختلافات کے باوجود بیش تر علم اس بات پر متفق ہیں کہ لفظ ” ل۔ ” گایں ہمزہ نہیں آئے آئے لیکن افسوس کہ بعض اخبارات اور رسائل اب بھی ” لیے ” کو لئے”لکھ رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل حیدرآباد (سندھ) میں ابتدائی جماعتوں کی اردو کی چند کتب دیکھنے کا اتفاق ہوا جن ” ال وج ‘ت ل و پپت ل بہت افسوس ہوا کہ جو لوگ کے سے ہیں وہ ابتدائی درجے کی نصابی تیاری اور چھپائی میں مشغول جمیںمیں مو و
بعض حضرات ” لیے ” میں ہمزہ اور ” ی ” دونوں لکھ دیتے ہیں یعنی اسے ” لیئے ” لکھتے ہیں۔ چلیے صاحب چھٹی ہوئی۔ جس کا جو جی چاہے لکھے ، آخر جمہوری دور ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہمزہ ایک حرف ہے اور لغت بورڈ نے اردو کے جو تریپن (53) حروف اور مقتدرہ قومی زبان (اب اس کا نام ادارۂ فروغ قومی زبان ہوگیا ہے نے اردو کے جو چون (54) حروف طے کیے ہیں ان میں ہمزہ بھی شامل ہے۔
ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے۔کسی لفظ میں کوئی بھی حرف بغیر کسی وجہ کے نہیں آسکتا اور ہمزہ بھی نہیں آسکتا۔ لیکن بعض لوگ اسے حرف ِ تہجی کی بجاے محض علامت سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال میں صحت کا خیال نہیں رکھتے۔ اگر کوئی حرف کسی لفظ میں بلا وجہ آئے گا تو اس لفظ کے ہجے (spelling) غلط ہوجائیں گے۔ کیا ہم انگریزی کے کسی لفظ میں کوئی حرف غیر ضروری طور پر لکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ فوراً ” جاہل ” کا خطاب مل جائے گا۔ اور رہی اردو تو اردو کا اب یہ حال ہے کہ ” غریب کی جورو سب کی بھابی ”۔ لیکن انگریزی تو ” بیگم صاحبہ ” ہے ، بھلا کس کی مجال ہے کہ انگریزی میں ایک حرف کی بھی غلطی کرے۔
٭٭… ہمزہ کے استعمال کے اصول
ہمزہ کے استعمال کے سلسلے میں ماہرین نے کچھ اصول طے کیے ہیں ، مثلاً:
1. جن الفاظ میں ہمزہ آئے گا ان کے لیے شرط کہ ن میںہمزہ سے پہلے الف ہو ، جیسے: آئیے ، جایئے ، ل یں ہ
2. دوسری شرط یہ ہے کہ ہمزہ سے پہلے واو (و) ہو ، جیسے: کھوئیے ، رویئے ، دھوئیے ، سویئے ، وغیرہ۔ یہ الفاظ بھی ہمزہ کے ساتھ درست ہیں۔
۳۔ایک اور صورت ہمزہ کے استعمال کی یہ ہے کہ ہمزہ سے حرف پر زبر ہو ، جیسے: گَئے ، نَئے۔ ” گئے ” میں گگا ” ” میں گافا ‘ن ئےر لو ن زبر لو ن ن ر اوپ ن ئےبر اوپ ن بر لو ن’ ہمزہ چاہیے۔
۴۔لفظ ” لیے ” کا املا دراصل ” ل ی ے ” ہے۔ اس لیے اسے ” لئے ” (یعنی ل ء ے) نہیں لکھنا چاہیے۔لئے ، کئے ، دئے ، سئے ، جئے ، لیجئے ، کیجئے ، دیجئے وغیرہ لکھنا غلط ہے۔ ان کے تلفظ میں ہمزہ کا کوئی کام نہیں اور ان کا درست املا بغیر ہمزہ کے یعنی لیے ، کیے ، دیے ، سیے۔ جیےد ، لیجیے ،و ، لیجیے ،و ، ” کیجیے ” کا املا ” ک ی ج ی ے ” ہے۔ اسے کیجئے یعنی ” ک ی ج ء ے ” لکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے ، کیونکہ اس طرح تو اس کا بھی ٹھیک طرح سے اجد ۔د کیس
5. ” چاہیے ” میں بھی ہمزہ نہیں چاہیے۔اسی طرح جمع کے لیے ” چاہییں ” درست ہے ، یعنی دو ” ی ” کے ساتھ ، ا۔ور ہمزہ کے بغیر ہمزہ کے بغیر مزہ کے بغیر مزہ یے بغیر
6.آزمائش, نمائش, فرمائش وغیرہ کے ضمن میں رشید حسن نے فارسی کی سند دی ہے کہ فارسی ایسے موقعوں پر ہمزہ کی بجاے ” ے ” لکھی جاتی ہے یعنی آزمایش, فرمایش, نمایش وغیرہ.یہاں ہم رشید صاحب سے بصد ادب و احترام اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ اردو کے لیے فارسی کی سندلانا بنیادی طور پر غلط ہے۔
اگر فارسی کی سند دیں گے تو پھر ہر معاملے میں دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اردو لکھنے کی ضرورت ہی کیا؟ پھر فارسی ہی کیوں نہ لکھی جائے۔ہاں جب فارسی لکھیں گے تو فارسی کے اصولوں کی پیروی کی جائے گی۔ سرِ دست اردو لکھ رہے ہیں لہٰذا اردو کے قوانین اور اصولوں پر عمل ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ ان الفاظ میں ہمزہ لکھنے ہی سے اس تلفظ پیدا ہوتا ہے جو اردو میں رائج ہے یعنی فر مائش کا صحیح تلفظ ‘تلفظ’ گویا اس میں ہمزہ الف کا قائم مقام ہے اور ہمزہ کی بجاے ” ی ” لکھنے سے اس کا تلفظ ” فرما یِش ” کا ‘گا ر اور یہ دونوں تلفظ اردو کے لحاظ سے درست نہیں ہیں۔
نمائش ، فرمائش ، فہمائش ، آزمائش ، گنجائش ، ستائش ، آلائش ، آرائش ، ان سب میں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ ورنہ اردو کا درست تلفظ ادا نہیں ہوسکے گا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ موضوعات پر مبنی ہو, ساتھ ان آپ کی دل کے تمام موضوعات اور جو آپ پڑھنا چاہتے شامل ہوں, رپورٹ ہو یا فیچر, قرطاس ادب ہو یا ماحولیات, فن و فن کار ہو یا بچوں جنگ, نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے ، آپ صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار ہیں کرت ر لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی ، ا۔ن صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مکیںت ب ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے ، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ ، بچوں کا جنگ ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ ، اخبار منزل ، آئی آئی چندیگر روڈ ، کراچی