میاں بیوی کے مسائل پر مبنی گھریلو فلم ” شریک حیات ”

ہمارے معاشرے میں شریکِ حیات کا لفظ صرف عورت کی کے لیے استعمال ہوتا ہے ، حالاں کہ یہ ہے کہ گ محی ع ک یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے ، جس کی شریک حیات دو سگی بہنیں بن جاتی ہیں۔ مذہبی اور شرعی طور پر تو یہ غلط ہے۔ مسئلہ اتنا نازک تھا کہ بہ ظاہر کوئی حل آتا تھا, چناں چہ یہی وہ تھا, جہاں پہنچ کر ایک تو خود کہانی نگار کار بھی میں گئے, چنانچے ایک شکل آئی کہ ایک غلط چیز بھی صحیح ثابت ہوگئی, کہانی کے واقعات کچھ اس طرح بنائے گئے کہ ایک بہن مردہ سمجھتے ہوئے جو تھی ، مگر خبری دُوسری بہن بیوی زندہ کا علم ہوا ، ۔یکا اا ون مد یکا دُون مد

اس طرح سے یہ اُلجھن سلجھ گئی۔ فلم ساز و ہدایت کار ایس ایم یوسف کا نام پاکستان اور ہندوستان فلمی تاریخ میں گھفلپم مااجی گھریلوےم یںماجی ن ن ن تر در بھارت میں اُن کی شہرت فلم نیک پروین ، گرہستی ، اور جیسی سپرہٹ و کلاسیکل فلمںوں کی سے ہر عام اہلہا ہ بر یہ ب ب ب او اص ن ب فلم ن س لم. ان کی فلموں کی کہانیوں کا مرکزی کردار زیادہ تر عورت ہوا کرتی تھی۔

میاں بیوی کے مسائل پر مبنی گھریلو فلم '' شریک حیات ''

کہانی نویس حسرت لکھنوی کو اس طرح کی فیملی ڈراما کہانیاں لکھنے پر ملکہ حاصل تھا۔ فلم ” ‘حیات’ ‘میں مصنف نے نکاح اور طلاق جیسے اہم کو بڑی خوب صورتی سے کہانی حصہ بنایا, جسے ایس ایم یوسف اپنی ڈائریکشن سے قدر انداز میں پردۂ سیمیں ذریعے عام و خاص لوگوں میں ان اہم دینی مسئلہ کو سمجھنے کی آگہی پیدا ہوتی ہوئی نظر آئی۔

فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے یہ فلم ان کا ایسا کارنامہ ثابت ہوئی ، جس انے مطلم م اا ملم مںعااا ملم مںعاعاا ن ملوکم مع نغمہ نگار فیاض ہاشمی اور موسیقار اے حمد نے اس فلم کے لیے بے حد عمدہ اور گیت تخلیق کیے ، جو اُالد ہ و اُاردو شہلمی ہر

فلم کے فوٹو گرافر بابر بلال نے اس بلیک اینڈ وائٹ فلم میں لائٹنگ کا استعمال نہایت خُوب صورتی سے کیا ہے۔ فلم گانے بول !! ” کسے آواز دوں تیرے سِوا ” اس گانے میں پُراسرار رُوحوں کے ایفکٹ میں انہوں نے جس کمال فن مظاہایکھ ۔ہا ن مظاہایکھ ےہا ہےد ب و تدوین کار نیاز احمد نے اپنے شعبے میں جس انداز سے کام کیا تھا ، وہ فلم دیکھنے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

مختلف اُلجھے ہوئے مناظر کو جس طرح سے انہوں نے فلم کے ٹیمپو میں سلجھا کر جوڑے تھے ، وہ لائق ستائش ہیں۔ فلم کے مکالمے اور گانوں کے علاوہ بیک گرائونڈ میوزک کی خوش گوار واضح آوازوں کاو اڈنئر سئاویکل ران ۔رائونڈ رع سن سن سر عرع اداکاری کے شعبے میں اداکار کمال نے پہلی بار ایک سنجیدہ کردار ادا کر کے فلم بینوں خوش گوار حیات وش گوار حیرت میں تبت ل

کمال جسے شوخ و چنچل اور مزاحیہ ہیرو کے حوالے شہرت حاصل رہی ہے ، لیکن اس فلم یںک ی بار ایک ھیکااالی بار ایک ھیںااا ن ر ا پُںااا ن ر ا پُںاوقا ن سن بر راد ن سن رد اداکارہ شبنم اور صابرہ سلطانہ جو اس فلم میں عنوانی میں تھیں ، یہ دو بہنوں کی کہانی مذہنوں کی ان مذہمنی یکاد د د مم اد م م م اد م م م اد م د بل م د ب

شہنشاہ غزل مہدی حسن کو پہلی بار کسی فلم غزل گاتے ہوئے پردۂ سیمیں پر دکھایا گیا تھا.؎ ” بات کرنی مجھے کبھی ایسی تو نہ تھی, جیسی ہے تیری کبھی کبھی ایسی تو نہ ” یہ مقبول غزل ان ہی پر فلمائی گئی تھی ۔ شبنم کا کردار اس فلم میں خاصا مشکل تھا ، جسے انہوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے بہ خوبی ادا کیا۔ سنجیدہ گھریلو مسائل پر مبنی اس فلم میں کامیڈی کی گنجائش نہ تھی ، مگر ایس ایم یواا نے لہری یدوایک سن تصر کدو ایک مس ر رد دیگر اداکاروں میں قوی, لبنی, بے بی جگنو, شوکت اکبر, ذورین, صاعقہ, کلاوتی, سجاد حیدر, محبوب کشمیری, عالیہ بیگم, خان, ارم, بے بی ثریا کے نام بھی شامل تھے. یہ یادگار فلم 1968 ء میں کراچی کے ریوالی سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔

باکس آفس پر اس نے شان دار کام یابی حاصل کی۔ فلم کی مختصر کہانی کچھ یوں تھی ، کہانی دو سگی بہنیں نجمہ (صابرہ سلطانہ) اور ثریا (شبنم) کے گرد گھومتی ہے۔ سلیم (کمال) اپنے ماموں ملک صاحب (قوی) کی چھوٹی بیٹی ثریا کو چاہتا ہے۔ سلیم نے ثریا سے شادی کے لیے ماموں کی رضامندی کی, لیکن ماموں نے ثریا کے جائے, اس کی بڑی بہن نجمہ (صابرہ سلطانہ) کو سلیم کے نکاح میں جس علم سلیم کو شادی کے پہلے ہوا. سلیم نے اسے تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کر لیا۔ ثریا اپنی باجی کے ساتھ رہنے لگی۔ ایک روز ثریا ایک خط لکھ کر اپنی باجی کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک حادثے کا شکار ہو کر وہ شوکت اکبر کے کلینک میں نرس بن کر اپنی زندگی گزارنے لگی۔ نجمہ اور سلیم یہ سمجھے کہ ثریا مر گئی ہے۔

ملک صاحب ثریا کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر پائے اور وفات پا گئے۔ سلیم ایک بچی کا باپ بن گیا۔ نجمہ کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے علاج کے لیے مری بھیج دیتا جہاں سڑک پر بھیک مانگتے ایک فقیر فیضی کو پرس سے پیسے لگتی ہے, لڑھک ہے, اپاہج فقیر فیضی اپنی جان پر کھیل کر بچا لیتا ہے. نجمہ اس حادثے سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ سلیم کو اس حادثے کی اطلاع ملتی ہے ، وہ مری طرف روانہ ہوتا ہے ، جہاں سلیم کی کاو حادثہ پیش ت پ ن سلیم کو علاج کے لیے شوکت اکبر کے کلینک لایا جاتا ثریا نرس بن کر اپنے بہنوئی خوکمت کرتی ق ااور ی .کد لد لع

ڈاکٹر شوکت کو ثریا اور سلیم کی محبت کا علم ہو جاتا ہے۔ ثریا کے علاج سے سلیم بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے ، ثریا اور سلیم کی شادی ہو جاتی ہے۔ ایک روز ایک بچی جگنو سلیم کے پاس بھیک مانگنے آتی فقیر فیضی کے پاس رہتی تھی ، نجمہ بہن کٹیا میں تھی ، جہاُ ب ل اں س ست تکے لوو سلیم کو اُس بچی سے ہمدردی ہو جاتی ہے اور ایک اس کے ساتھ اس کی کٹیا ہے ، جہاں وہ کاو نیم پاگم گااا نیم پاگم گالت ن س تر در نجمہ کے سر پر چوٹ لگتی ہے اور عین اُس وقت سلیم وہاں آتا ہے ، تو اُسے کر وہ سرتاج کہہ کر لپٹ جاتی ہے۔ سلیم کے لیے اب ایک اُلجھن ہو جاتی ہے کہ دونوں بہنوں کو وہ بیک وقت کس طرح نکاح میں رکھ سکتا ہے۔

سلیم نے ثریا کو ساری کہانی بتا کر کہا کہ میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہُوں۔ ثریا اپنی بہن نجمہ کے زندہ ہونے کی خوشی میں اسپتال جاتی ہے اور سیڑھیوں سے گر جاتی ہے۔ ڈاکٹر اس کے بچے کو بچا لیتے ہیں۔ ثریا اپنی باجی کے پاس پہنچ کر مر جاتی ہے۔ فلم کی کہانی فلش بیک میں جاتی ہے ، جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ سلیم کے بچے کی سال گرہ کی تقریب ، جس میں وہ ثریا کی سال گرہ پر لوگوں کی تنقید بنتا ہے او۔ر پھیا اس بنچے کی نات فلم کے آخر میں نجمہ اپنی بہن ثریا کی تصویر کے سامنے اس کی قربانی کو یاد کر کے اُداس کھڑی ہے۔ سلیم اور نجمہ ثریا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔

فلم کے نغمات بہت یاد گار تھے۔ (1) بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی (کلام بہادر شاہ ظفر) (آواز مہدی حسن) (فلم بندی مہدی حسن)۔ (2) میرے دِل کے صنم خانے میں (نغمہ نگار ریاض الرحمٰن ساغر) (آواز مسعود رانا) (فلم بندی کمال)۔ (3) اک تم ملے تو سارا جہاں مل (نغمہ نگار فیاض ہاشمی) (آواز مالا ، منیر حسین) (فلم بندی شبنم ، کمال) شبنم ، کمال)



About admin

Check Also

فلمی سرگرمیوں کا موسم

فلم ایک طاقتور میڈیم ہے اور فن کاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پردہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *