طلبا فری آن لائن کورسز سے فائدہ اٹھائیں

انٹرنیٹ کے عام ہونے سے تعلیمی نظام میں آن لائن کورسز متعارف کروائے گئے۔ اس کا بنیادی فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود طالب علموں کے مشہور و مگیمو۔ جامعات سے گھرور ب وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لاکھوں افراد نے آن لائن تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیمی قابلیت ایںور صل توں م پھر حالات نے کروٹ بدلی اور کووِڈ -19 عالمی وبا نے نظامِ زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ایسے میں شعبہ تعلیم بھی اس وبا کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔

مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ آن لائن تعلیم دینے کے رجحانن میں مزید ۔اافہ د گھر پر بیٹھے بیٹھے ہر عمر کے طالب علم آن لائن تعلیم کے حصول میں مگن رہا۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ کووِڈ -19 کی تیسری لہ۔ا ا باع تعلر کےا باعث تعلر کےا باعث تعلر کےا باعث تعلر کےا باعث تعل بر ایسے میں طلبا کو چاہیے کہ اپنے تعلیمی سال کے کے علاوہ اپنی دلچسپی کے دیگر بھی آحین لائن کصورسز ہاوان کصبھی وکے د تکےو ب توجہ دیں تکہست نہ

انٹرنیٹ پر دنیا کی بہترین جامعات کی جانب سے سینکڑوں آن کورسز دستیاب ہیں, جنہیں بآسانی ہارورڈ, ٹی اوپن کورس کورسیرا, اوڈاسٹی, خان اکیڈمی اور دیگر پر سرچ کیا جاسکتا ہمارے ملک کے کئی نوجوان پہلے ہی ایم آئی ٹی اور ممتاز اداروں کے مفت آئن لائن کا فائدہ اٹھا رہے ہیں باقی طالب علم بھی ان کورسز سے مستفید ہوسکتے

آن لائن کورسز کی حمایت کرنے والوں کا وسیع پیمانے پر خیال تھا کہ یہ طریقہ تعلیم صدیوں تعلیمیا نظام تعلیمید نظام کو ترد ان کا خیال تھا کہ انٹرنیٹ کی نہیں علموں کو اعلی درجے کی تعلیم ہے اور یہ میعار کے کم نہیں ہو گی جہاں طالب علموں کو مخصوص کلاس رومز میں معمول کے مروجہ طریقوں کے مطابق اعلی تعلیم سے نوازا جاتا ہے. آن لائن طریقہ تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کے حصول بنانے اور عوام الناس تک پھیلانے ذریاعہ سمجھا گیا ذلااا سمجھا گیا ذلادا نیک عکل تورع عم ا لادوا نیک عتل ت عد

2013 ء میں جارجیا ٹیک نے کمپیوٹر سائنسز میں پہلے آن لائن ماسٹر کیا ، جس کی فیس 6 ہزاز 600 ڈالرز کھی ہی او ےہوے م ہوڈگ م و م کو م اس کورس میں 1400 طالب علموں نے داخلہ لیا۔ اس پروگرام نے یہ ثابت کیا کہ وسیع پیمانے پر آن لائن اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہے۔ اسی دوران آن لائن کورسز کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی اور یہ لوگوں کے لیے خاصی پُرکشش بات ھیتھی جو اپدے فعےبے تت سعبھےت تت

کچھ سال قبل ایم آئی ٹی کے ڈیوڈ پرٹچارڈ (David Pritchard) اور دیگر تحقیق کاروں کی ایک جائزہ رپورٹ میکینکس ریویو میں شائع جس میں آن لائن کورسزاور کیمپس میں جاری کورسز تقابلی جائزہ پیش کیا گیا. جائزے سے یہ پہلو سامنے آیا کہ آن لائن کورسز مواد کے ابلاغ میں سود مند ہیں حتیٰ اہیںن طاھےب پ وٹیم کے الیے ہیںا ت تہور ع

دراصل آن لائن کورس کے طالب علم فزکس کے مضمون کے بارے معلومات رکھتے تھے اور اہاوں نے امیتان الب نممم من الب سترد سترد بترد ممحم کیام موح مالب سترد بترد پرٹچارڈ کے مطابق وہ کلاس کے اچھے طالب علموں کی مانند اس مضمون کو سمجھنے اور اپنی اسہےتمداد کار بڑھانے میں بار بڑھانے میں بانے میں ب

ایک رپورٹ کے مطابق آن لائن کورسز کے ضمن میں ایک اہم قابل توجہ معاملہ یہ ہے کہ ان کورسز و خ اامم و اااا م ااا وخ ع اوفیصان طوخ اود موپ ال موفیصد موفیصد موفیصد موفیصد مود مموفیصد موپد مود موفیص. Penn نامی ادارے کے جائزے کے مطابق انخلاء کی یہ شرح 96 فیصد ہے۔ اس حوالے سے پرٹچارڈ کا کہنا تھا کہ آن میں شریک ہونے والوں کی اکثریت طالب علموں کی نہیں, درحقیقت کو تفریح ​​کے ان کورسز میں کرواتے ہیں اور مفت میں ایک معیوب Penn کی رپورٹ کے مطا بق ا ن لائن کورسز میں داخلہ لینے والےطالب علموں میں نصف پہلی آن لائن کلاس سے کورس چھوڑ جاتے ہیں۔ پرٹچارڈ ایم او او سی کورس کے لئے 17 ہزار طالب علموں نے خود انرول کروایا, صرف دس فیصد طالب علموں دوسرا اسائنمنٹ مکمل کیا کی صرف نصف نے سرٹیفکیٹ کے خاتمے تک آن لائن کلاسز میں رکھی.

موکس (large open on-line course) کے بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کہنا ہے کہ موکس کے ذریعے تعلیم کی فراہمی کے ایک برتر پہنچا جارہا ہے کیونکہ کو اپنے ساتھ منسلک کیا جاتا تاہم بعض ایسی چیزیں بھی کیمپس کے اندر وقوع پذیر ہوتی ہیں جو ٹیکنالوجی کے ذریعے منتقل نہیں کی جا سکتیں۔

بالغ افراد خصوصاً ایسے افراد جو تعلیم حاصل کرنے کی رسمی عمر سے آگے نکل چکے ہوں ان کے لیے یہ نہایت فنئدہ م ایسے افراد جو اگر کسی موضوع میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں وجہ سے کلاس نہ لینا چاہیں, وہ اپنی کے مطابق موکس چھوڑ سکتے ہیں کیمپس کی تعلیم میں انھیں 12 ہفتے کا سیمسٹر پورا کرنا ہوتا ہے.



About admin

Check Also

تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً 76 سال ہوگئے ہیں مگر افسوس ہمارا ملک …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *