گزشتہ ہفتہ سیاسی سرگرمیوں سے بھرپور رہا۔ پنجاب حکومت بجٹ منظور کرا کر سرخرو ہوئی۔ دعوے اور سرگوشیاں دم توڑ گئے۔ حکومت کے اعتماد میں پی ڈی ایم کے کمزور ہونے کے بعد حد اضافہ ہوا ہے اور اضافہ اس حد ک ہے یٰو وے مدہ انت ھی اوے من دہب انت ھی بات مع خیر اس کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر انتشار نے حکومت کو حوصلہ دیا۔ جہانگیر ترین گروپ کو قابو کر کے حکومت نے خطرے کو ٹال دیا۔
حکومت کے اندر سے جو گروپ سر اٹھا رہے تھے وہ اپنی سرگرمیاں معطل کر کے اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ جب سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے معاشی اور اقتصادی ترقی کے استحکام نعرہ لگایا اور شرح ترقی منفیا رح تر منفیا ک ک بات ت د
حکومتی حلقے اور خاص طور پر حکومتی ترجمان جن درجنوں ہے, میں ایک توانائی اور کی نئی لہر گئی دیکھنا یہ ہے کہ ترین گروپ کے بجٹ عرصہ عام خیال ہے کہ جہانگیر ترین کو ریلیف مل گیا. بات آئی گئی ہو گئی ہے اب جب تک ترین گروپ کو کہیں سے اشارہ یا توانائی نہیں گی ، وہ خاموش ہی رہے گا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے باہر آنے سے نواز شریف بیانیے میں ٹھہرائو آیا ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی کسی مصلحت کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کو وہ جانچنا پرکھنا چاہتے ہیں کیونکہ نواز شریف بیانیے والے سمجھتے ہیں وہ اہیںرظات وہ اہیںتظات ت پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم کے بیانیے سے لاتعلقی نے سیاسی حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ معاملہ پھر وہیں آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کس کو آشیر باد حاصل ہوتی ہے ، کون اسٹیبلشمنٹ کی قربت حاصل کرت ہے۔
کہا جا رہا ہے یا کم از کم پیپلز پارٹی تاثر دے رہی کہ ان کے طاقتور حلقوں سے معاملات درست جا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر انہیں تو پیشی پر پیشی کا مرحلہ درپیش ہے۔ چاروں طرف سے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف بیانیے والے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے کہ مفاہمتی بیانیے کا حاصل مصائب اور پریشانیاں ہی نہ نواز شریف بیانیے طرف یکسوئی سے کیا جائے جب اس عوام لیگ (ن) طرف راغب ہوتے ہیں.
طاقتور حلقے بھی مرعوب اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اب تو ہماری طرف کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔ آصف زرداری نے لاہور میں ایک ہفتے کے قریب وقت تاہم وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکے نہ پنجاب کی میں کوئی ہلچل نظر آئی, کچھ ‘سے لئے ضرور آئے کہ پیپلز پارٹی کو آئندہ کے لئے طاقتور حلقوں کی طرف سے کوئی اشارہ تو نہیں ہو گیا ہے؟ چوہدری پرویز الہی کی ملاقات البتہ کچھ غیرمتوقع اور قدرے والی تھی تاہم بعد میں چوہدری پرویز یہ کہہ کر غبارے ہوا نکال دی کہ نے وزیراعظم عمران خان سے لے کر یہ ملاقات کی تھی.
چوہدری برادران جس سیاسی قدوقامت کے ہیں اجازت کا لفظ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شاید اس میں بھی کوئی سیاسی رمز ہو۔ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کا امتحان نزدیک ہے۔ آزاد کشمیر میں ان کے ارکان ٹوٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ کون ان کی وفاداریاں تبدیل کرا رہا ہے یہ شہباز شریف کو بخوبی علم ہو گا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ پت جھڑ کی طرح ان کے ارکان نے وفاداریاں تبدیل کی تھیں یا کرائی گئی تھیں۔ اب اگر آزاد کشمیر میں بھی وہی سب کچھ ہوا تو نواز شریف بیانیے کو تقویت ملے اور وہ بیانیہ بکہمے آاارح اب نواز زریف بیکر نر نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو کہہ سکیں گے کہ مفاہمت بلکہ مقصد طاقت اور جدوجہد بغیر حاصل نہیںا ہو سکت۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان بھی سیاسی رموز سے پردہ اٹھا رہا ہے پیپلز پارٹی اور لیگ قیادت سے زرداری اور خاندان کو ہٹانا گا سے اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی کو سیاسی منظر سے ہٹانے فیصلہ بھی کوئی ادارہ یا تحریک انصاف کی قیادت کرے گی۔ کس پارٹی کا کون سربراہ ہو گا ، کس کو سربراہ ہونا چاہئے یعنی سا لیڈر یا رہنما کس جماعفیصم ہ ائےا مد رور فیصع حکومت معاشی و اقتصادی حالات میں بہتری کے تو بہت سے دعوے کر رہی ہے مگر مہنگائی نے کا جینا دوبھر کر دیا ہے بر کر دیا
جیتے جی غریب مر گیا ہے ، آگے اور مہنگائی آنے والی ہے۔ دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب بجلی ، تیل اور گھی مہنگا ہونے کی خبریں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اپوزیشن کو متحرک کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ پھر ایسا ہونے سے معاشی ترقی اور استحکام کے دعویٰ کی ذرا برابر کوئی اہمیت اور حیثیت نہ ہو گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکے گا کہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔ مطلب یہ ہے کہ مہنگائی سے بے روزگاری ، بدامنی ، لاقانونیت اور اضطراب پریشانی و مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات ارکان اسمبلی تک جاتے ہیں ان کو اپنے حلقہ انتخاب کی فکر لگ جاتی ہے۔
حکومتی ارکان کی بے چینی اضطراب ان میں گروپ بندی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ایسا پہلے بھی تحریک انصاف میں گروپوں کے متحرک ہونے سے ہوا ہے آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔ آخرکار ارکان نے منتخب تو عوام کے ووٹوں سے ہی ہونا ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ آخر کتنا سہارا دے گی۔ شہباز شریف کا یہ بھی امتحان ہے کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ کے معاملہ کو کس طرح نمٹاتے اور حل کرتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک ” ٹول ” ہے جس کو کسی طرح بھی 58 ٹی بی کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔