ورکنگ ریلیشن شپ سے پارلیمانی ماحول بہتر بنائیں

قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کیلئے بجٹ کی ہےلیکن یہ بجٹ سیشن ممبران پارلیمنٹ قیادت کے رویوںبالخصوص ان سیا سی و بصیرت کے یہ ایک تھا جس میں پہلے کچھ زیادہ اعلانات شدہ اقدمات سینٹ کی سفارشات اور بعد واپس لے گئے یا یہ لواسطہ. کہ ٹیکسز کی شرح زیادہ ہے جس کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں ہی نکلے گا اور یہ بوجھ آدمی نے ہی برداشت کرنا ہے۔

بالکل سادہ بات ہے کہ اگر اس سال 4500 ارب ریونیو جمع کیا گیا اور اگلے سال 5800 ارب وصول کیا جا ئےگا تو وو ل اگر پیٹرولیم لیوی جسے ماضی میں اسد عمر جگا ٹیکس کہتے میں کا کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ مصنو ا نتیجہ مصنو ات کے ماوا

حکومت بالواسطہ ٹیکس کی پالیسی ترک کرے۔ بالواسطہ ٹیکس بیورو کریسی کا روایتی طریقہ ہے کیونکہ یہ ٹیکس وصولی سان ہوتی ہے۔اگر آپ کال لمہ وےال لکم ون س سن سوت ہیںن اصل طریقہ جو پائیدار ہے لیکن مشکل ہے وہ ٹیکس کا نیٹ یا بیس بڑھانا ہے۔ ان امیر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا ئے جن کی آمدن قابل ٹیکس ہے لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ان کا ا۔ بھی دہےتی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تو سے یہ سچی بات کہہ دی اور اسمبلی سے مخاطب ہوکر کہا کو ھیھی سوچن چا وہئے سوچن چاوہئے ا

پچا س کروڑ روپے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ممبران پارلیمنٹ خود ٹیکس ادا نہیں کرتے تو انہیں لوگوں پرٹیکس لگانے کا کیاحق حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی نکتہ اٹھایا کہ صرف ممبران پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشوارے کیوںکئے جا تے ہیں بیو را تے ہیںا و ۔مپمٹب یا کیوں نہیں۔نب لو ن ن توت نہیں۔ن ب بیشتر بزنس مین اور صنعتکار پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں۔

کئی کئی پلازے ہیں۔ فارم ہائوسز ہیں مگر وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ایف بی آر بھی پہلے سے ٹیکس دینے والوں اضافی بوجھ چوروں پر ہاتھ نہیں ڈالتا مگر ضرور ہے کہ اس سطح سے سیا ارادہ اور عزم بھی لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاسکے ٹیکس کے استثنی اور ریبیٹ کے نظام میں بھی سقم ہیں جہاں اربوں روپے بچائے جاتے ہیں ۔

جو برآمد کنندگان ہیں وہ ریبیٹ کیلئے اوور انوائسنگ کرتے ہیں اور جو درآ مد کنندگان ہیں ڈیوٹیز بچا اا کیلنگ اوئر لنئے انڈت اس کا کائونٹر چیک میکانزم بنایا جا ئے۔ فلاحی ریاست تب بنے گی جب ٹیکس کا نیٹ وسیع ہوگا اور ٹیکس کی شرح کم ہوگی ٹیکسز براہ راست لگیں گے۔ بالواسطہ ٹیکسز کا خاتمہ ہوگا۔اس کے نتیجے میں مہنگائی خود بخود ختم ہوجا ئے گی۔بجٹ سیشن سے سیا سی سبق بھی ملا حکومتی بنچوںنے کے ممبران بالخصوص وزراء نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پر کتابیں پھینک کر جو ایکم نپاا و ایکم ناپااد ن امکی نا یساد ن نو الیوت لمل

پارلیمانی روایت یہ ہے کہ قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر جب بھی خطاب کریں اسے سنا جا ئے۔ اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وزیر اعظم کی جب بھی ہو اسے خاموشی سے البتہ بعد میں اس جواب ضرور دیں حق ہےمگر آرائی بعد اپوزیشن لیڈرسکون سے تقریر کرنے میں کامیاب ہوئے مگر حکومتی بنچوں نے یہ تقریر نہیں سنی.

وزیر مواصلات مرادسعید ‘وزیر دفاع پرویز خٹک اور دیگر تمام حکومتی ممبران کو لابی امیں لے گئے اوزیشر وزیشن یڈور تور طتور رر جن چند حکومتی ممبران نے کہا کہ ہم یہ تقریر سننا چاہتے ہیں ان کی وڈیو گئی گویا وہ ناپسندیدہ کام کر کرہے ہیں۔

ایک حکومتی رکن خالد مگسی نے تو یہ وڈیو پرا سپیکر اور چیف وہپ سے بھی کیا.جب آپ جمہوریت اور کی بات کرتے ہیں از کم میں اتنا حوصلہ تو ہونا بات سن فیصلے تو آپ نے مرضی سے کرنے ہیں مگر اپوزیشن ممبران بھی تو آپ کی طرح ووٹ لے کرآئے ہیں۔ وہ بھی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس سسٹم کا اہم اسٹیک ہولڈر ہیں ۔حکومت نے جس طرح اکثریت بل بوتے پر قانون سازی کو بالخصوص ا انتخابق لاد لاد لاد پلاب للقاب للقاد لقاب للقاب اب اسپیکر نے ایک قانون ساز پا رلیمانی کمیٹی بنائی ہے جو بہت اچھا فیصلہ ہے۔

یہ امر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ قانون سازی عوام کیلئے کی جاتی ہے۔ قانون سازی کے عمل میں اپوزیشن کی مشاورت ضرروی ہے تاکہ اتفاق رائے سے قانون سازی کی صص انتخابی ص صلا حان ابی صصلاحان بقت ہم یہ تو لازمی طور پر متفقہ ہونا چاہئے تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوسکیں۔ حکومت نے جو قانون منظور کرایا ہے اس میں الیکشن کمیشن کے اختیارات چھین کر نادراکو گئے ہیں و و زارہ االہ ہے لی دادخلہ کا ذیلی داددلہ کا ذیل الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ ہے۔ اس کی غیر جانبدار حیثیت ہے۔

اسے متنازعہ نہ بنا یا جا ئے۔ اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے حکومت نے الیکشن کمیشن سے محاذ کھول لیا ہے۔ موجودہ حکومت کا طرہ امتیاز ہے کہ یہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن موڈ میں کام کررہی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی ماحول کو بہتر رکھنے کی بجائے خراب کرنے میں حکومتی ممبران ہی نہیں وزراء پیش پیش ہوتے ہیں۔ ماضی میں اپوزیشن جب واک آؤٹ کرتی تھی تو یہ پار تھی کہ حکومتی وزراء اپوزیشن کو واپس لے آتے تھے تین میں ایک مرتبہ بھی اس حکومت نے روایت کو نہیں بہر حال ہنگامہ آ رائی کے بعد سیز فائر ہوا اور بجٹ منظور ہوگیا.



About admin

Check Also

معاشی عدم استحکام: بروقت مشکل فیصلوں کی ضرورت

پاکستان میں ہر باشعور شہری ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آرہا ہے کہ کیا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *