سپر ہٹ ، یادگار ، رُومانی اور تاریخی فلم ” پہلی نظر ” جمعرات 6 اکتوبر 1977 ء کو کراچی کے پیراڈائز سینم بکین زیرد سینم ت رد یہ وہ دور تھا ، جب پاکستان کے سیاسی حالات بے حد خراب تھے ، بھٹو حکومت کے خلاف قومی کی تحریک عروج پر تھی۔ کراچی ، حیدرآباد ، لاہور ، پنڈی ، پشاور اور دیگر تمام شہر کرفیو اور ہڑتالوں کی وجہ سے بند تھے۔ کراچی اور حیدرآباد جو کہ اداکار محمد علی کے چاہنے کے شہر تھے, ان کی پیپلزپارٹی سے اور حمایت نے انہیں ان شہروں کی حمایت سے کر دیا, جس کے فلموں کا بائیکاٹ شروع ہوگیا.
جس کی وجہ سے اس وقت اس معیاری اور لاجواب کو کراچی میں کام یابی نہیں البتہ یہی فلم جب سیکنڈ رن میں کراچی کوہ نور سینما ریلیز ہوئی, تو اسے زبردست عوامی ملا, بڑی کام یابی سے دکھائی گئی. فلم کے ہدایت کار اسلم ڈار نے اپنے فلمی کیریئر میں بہت ہی مختلف اور منفرد کام کیا۔ ” پہلی نظر ” کی کہانی اور موضوع کے بارے میں وہ کہا کہ تقسیم ہند کے وقت وہ طالب علم تھے, ظلم ستم اس ملک کو ناحق بہایا گیا, اس کے وہ چشم دید گواہ تھے, جس کی گواہی تاریخی کتابوں کے صفحات سے مل سکتی ہے۔ ان کے ذہن میں وہ سارے زخم اور درد تازہ تھے۔
ان ہی زخموں کو پردۂ سیمیں پر لانے نے کہانی عزیز میرٹھی سے لکھوائی, جو بھی آگ اور کا عبور کر پاکستان آئے تھے.اس بدمعاش ہے, جو ایک کھوپڑی کا آدمی ہے, جس کا تعلق ہندوستان کے شہر دہلی سے تھا. یہ اُس دور کی کہانی ہے ، جب ہندوستان میں مسلمان ، ہندو اور سکھ مل جُل کر رہتے تھے۔ ایک دُوسرے کےتہواروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جانی کے بدمعاش بننے کا پس منظر یہ تھا کہ کی معصوم بہن کو درندوں نے نشانہ بنایا اور انہیں ااوا اوور انہیں کے وا ن رب تل عب جعب جعب جعب

جانی صرف عزت کے لٹیروں اور غریبوں پر ظلم کرنے والے ظالموں کے لیے بدمعاش تھا ، غریبوں مھلاوا۔ا نکھاروہ ت یہ یادگار کردار سپر اسٹار محمد علی نے ادا کیا تھا۔ بابرہ شریف نے دہلی کی رہنے والی ایک سلیقہ مند دوشیزہ سلمیٰ کا کردار کیا تھا ، جو فلم کی ہیروئن کا تھا۔ ایک روز جانی ہندوئوں کے ساتھ ہولی کا تہوار مناتے ہوئے سلمیٰ کو لیتا ہے ، بیس جانی کی یہم پہلی ےاانی کی یہم پہلی ےد ال ن تاوار تو ن سو تا اداکار ندیم نے ایک نواب زادے سلیم کا کردار کیا ، جو سلمیٰ کا منگیتر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو بے حد پسند کرتے تھے۔ جانی بدمعاشی سے بے پناہ محبت کرنے والی ایک طوائف چمپا (آسیہ) بھی تھی ، جس کے گیتوں اور ناچ میں جانیت محل انیت محل سلمیٰ ، سلیم اور جانی کی مثلثی محبت کی یہ کہانی غدر کے زمانے سے شروع ہوئی۔
جانی نے سلمی کی محبت میں شرافت کی زندگی بسر کا ارادہ کیا اور ایک روز سلمی کے والد مرزا صاحب (مسعود اختر) سے ملا اور اپنے آپ کو کے رشتے کے لیے پیش کیا, تو مرزا صاحب نے یہ سن باہر ہوگئے اور اسے بہت برا بھلا کہا اور اس بے عزتی پر انہوں نے جانی کو جیل بھجوا دیا۔ مرزا صاحب کے ساتھ سلیم کے والد شیخ کرامت اللہ (افضال احمد) بھی شامل تھے ، جو دہلی شہر کے ایک بااثر ۔ات د غرور اور تکبر کی علامت تھے۔ جانی جیل سے رہا ہو کر سلیم اور شیخ کرامت اللہ کی حویلی پہنچتا ہے اور اپنے خنجر سے اُن حملہ کرتا ہے۔ سلمیٰ کی مداخلت سے جانی وہاں سے چلا جاتا ہے۔ 1947 ء کا زمانہ تھا ، جب ہر طرف آگ اور خون کی ہولی سے ہندو اور سکھ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے تھے۔

شیخ صاحب اور مرزا صاحب سلیم اور سلمیٰ کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ علاقے کا سب سے بڑا غنڈہ سنگرام (نصر اللہ بٹ) اپنے بلوائی ہندو اور سکھوں کے ہمراہ مہےم ۔یاحب کی حی ت یر ر سنگرام اور بلوائیوں کے حملے سے صاحب پاس آ کر التجا کرتے ہیں غنڈوں سے صرف تم ہمیں بچا ہو, جانی, سلمی زندگی اور عزت کی خاطر اپنے ساتھی خان صاحب (ساقی) کے ساتھ صاحب کی حویلی پر پہرہ دیتا ہے. بارات لے کر جب سلیم آتا ہے ، تو بلوائی چاروں طرف سے مرزا صاحب کی حویلی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جانی بڑی بہادری سے ان بلوائیوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ مرزا صاحب اور شیخ کرامت کے خاندان کے تمام افراد اس حملے میں مار دیئے جاتے ہیں۔
سلمیٰ اور سلیم کو جانی بہ حفاظت اپنے دوست خان صاحب کی جیپ میں روانہ کر کے تن تنہا ہزارںوں بلائیاا ہزاروب بلوائیو ن ا ترص فئیاو خ ن ا ترص فئیاو ن کا ترص جانی کی دہشت سے ہندو اور سکھ کانپ جاتے ہیں ، لیکن چاروں طرف سے تلواروں اور خنجاوں زَد میں جادی ڑا تہوا ڑاد ات ہو شہیا یہ تھی فلم کی مختصر کہانی, جس کے مرکزی کرداروں کے شریف, تمنا, سیما, چکرم, سلطانہ اقبال, نیلم, مصطفے ٹنڈ, ابو ناصر جان, آشا پوسلے, عزیز میرٹھی, نذر, ٹینگو نے اداکاری کے جوہر دکھائے. اس فلم میں کل آٹھ نغمات تھے۔ صرف ایک گانے کی دُھن کمال احمد نے بنائی تھی ، باقی نغمات ماسٹر عنایت حسین کی دُھنوں کا شاہ کار ہیں۔
ان نغمات کے بول قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی گائیکی سے آراستہ فلم کے تین گیت بے حد ہوئے ، جن کی تفصیل کچھ یُوں ہے۔ (1) دُنیا دکب چُپ تین گیت (2) سجناں رےکیوں بھیگے تورے (فلم بندی آسیہ)۔ (3) چھن چھن باجے پائل موری (فلم بندی بابرہ شریف)۔ ان نغمات کے علاوہ کمال احمد کی دُھن میں مرتب کردہ گانا ” تو نے بھری برسات میں دل جلایا ”۔ اس فلم کا ایک مقبول اور خوب صورت نغمہ قرار پایا ، جو اداکارہ بابرہ شریف پر فلمایا گیا۔ یہ گانا تسلیم فاضلی نے لکھا تھا۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کا گایا ہوا گیت ” اے جان تمنّا تیرا چرچا نہ کریں گے ” اداکار حایم ئٹ
اس یادگار فلم کا چربہ بھارت میں جیت کے نام بنایا گیا, جس میں بابرہ شریف والا کپور, محمد علی والا سنی دیول اور ندیم کردار سلمان خان جب کہ والا کردار تبو نے کیا تھا. پہلی نظر ایک شاہ کار اُردو فلم تھی ، جو اسلم ڈار کی ذہنی کاوشوں کا ایک نادر اور اعلیٰ شاہ کار ثا۔بت ہوئی کار ثا۔بت ہوئی ار ثا۔بت ہوئی ار ثابت ہوئی