کراچی جو کبھی فلم سٹی ہوا کرتا تھا

کراچی کا شمار دنیا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہوتا ہے, ایک زمانے میں لوگ اس شہر کی تفریحی گاہوں کے قصے بچوں کو سناتے ملک بھر کے عوام دیکھنے کی غرض خصوصی طور پر آتے تھے, صنعت و تجارت میں یہ پاکستان کی شہ رگ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ پُورے پاکستان سے لوگ یہاں اپنے خوابوں کی تعبیر کی تکمیل کے لیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ کراچی کو منی پاکستان ۔ات کہا اکستان ۔بھیت کہا اکستان ھیھیت کہا

اس شہر کو شہر قائد اور عروس البلاد کے ناموں سے بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ فلمی صنعت کے حوالے سے اس شہر کی اہمیت ایک میں بہت زیادہ تھی, یہ پاکستان کا واحد جہاں ایک دور میں شہر ہونے کا ہے کاروبار ہمیشہ عروج پر رہا, اور زیادہ تر فلمیں وہاں رہی ہیں, لیکن کراچی وہ ہے, جہاں ایک زمانے میں کا بزنس سب سے زیادہ نمائش ہونے والی اردو فلموں نے سلور جوبلی کے اعزازات دیگر تمام شہروں کے مقابلے میں زیادہ حاصل کیے, اس حوالے سے کراچی کا منظر ماضی میں بے حد قابل رشک رہا ہے. فلم ڈسٹری بیوٹرز کا کاروبار تو پاکستان بننے سے قبل بھی کراچی میں تسلی بخش رہا۔

اس سلسلے میں ایور ریڈی پکچرز, نگار پکچرز کے بڑے بیوٹرز ادارے یہاں موجود تھے, پاکستان کے بعد ایور ریڈی پکچرز ملک کا سب سے فلم ڈسٹری بیوٹرز ادارہ کا رہا, جو آج بھی برقرار پاکستان بننے کے بعد جب لاہور میں فلم سازی کا ہوا ہوا اُس وقت کراچی میں کوئی اسٹوڈیوز موجود نہ تھا ، یہاں کاروں کو اس وقت فلم سازی دل چسپی نہ تھی۔ ابتدائی دور میں لاہور سے فلم ساز و ہدایت کار حسین رضوی اور ان کی اہلیہ نوکہر جہااں ،

نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے جہاں آج اے جناح روڈ پر کوثر میڈیکل بلڈنگ کی تیسری مہنل مےا آفاب ات م را اب ات م سر رع رع یہ تمام لوگ کراچی سے مایوس ہوکر دوبارہ لاہور چلے گئے۔ ان ہی دنوں یوسف ایچ ایچ بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آئے۔ یہ صاحب پربھات اسٹوڈیو پونا کا تجربے رکھتے تھے۔ انہوں نے کراچی کے ایک سرمایہ کار فدا حسین پُونا والا کو اسٹوڈیو کے قیام کے لیے رضامند کیا۔

یہ 1951 ء کی بات ہے اور کراچی میں پہلا نگار خانہ فلم اسٹوڈیو ” قیصر اسٹوڈیو ” کے نام سے قائم کیا گیا۔ اس اسٹوڈیو کا قیام ماڑی پور روڈ پر عمل پذیر آیا۔ یہاں ایک فلم کا آغازبھی ہوا۔ اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ سسٹم نہ ہونے کی بِنا پر گانوں کی ریکارڈنگ کے بھیم پُورہ کے راکسی سنیمکیےم یں۔اا کے نرت م فا اہی ر رتات م اس وقت ایک غفار نامی سنگر تھے ، جنہوں نے اپنی آواز میں یہ گانے ریکارڈ کروائے۔ جب ریکارڈنگ کا رزلٹ چیک کیا گیا تو انتہائی ناقص نکلا ، جس کی وجہ سے اس اسٹوڈیو میں اور فلم کا آغاز نہ ہوسکا ۔از نہ ہوسکا ۔از نہ ہوسکا ۔از نہ ہوسکا

پاکستان میں فلم ساز کے بانی دیوان سرداری لال نے کراچی میں فلم سازی کے لیے اُسی زمانے میں رُخ کیا۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے چند سرمایہ کاروں کی مدد سے یہاں فلم سازی کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں کراچی میں چین نے صنعتی نمائش کا کیا ہوا تھا.دیوان صاحب نے اس نمائش ایک بہت بڑا اسٹال حاصل کرلیا, فلم اسٹوڈیو میں تبدیل کرکے کراچی فلم اسٹوڈیو نام دیا. یہ نمائش کے علاقے میں بنایا گیا۔ ان ہی دنوں فیڈرل اسٹوڈیو گارڈن کا قیام عمل میں آچکا تھا۔

اس اسٹوڈیو میں ہدایت کار شکور قادری کی فلم ” بے کس ” کے علاوہ ایک فلم ” جولیٹ ” کے نام سے شروع کی گئی۔ ” بے کس ” کی چار روزہ شوٹنگ ہونے کے بعد فلم کر دی گئی, جب کہ سلطان کی فلم ” جولیٹ ” جس کے موسیقار قادر فریدی نے کے لیے لاہور سے ملکہ پکھراج کے اسٹوڈیو سے سائونڈ ٹریک اور کیمرہ کرائے پر گیا ، اسی دور میں یہاں فلم ساز اے بخاری محمد حسن کو لے کر فلم آغاز معروف گلوکارہ س ا اود او ر او ر ر ناو ر

شاہینہ کے سوتیلے والد مرزا کی ہدایت کاری میں یہاں ایک فلم ” اجنبی ” کی مہورہیں کا آغاز ہوا ، یک موا یہ تر د لاوا یہ ترام ھلھوا یہ ترم دل 1953 ء کا ذکر ہے۔ منورچاچا نامی شخص نے اس اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نگارخانے میں 9 اگست 1953 ء میں فلم ” سدا سہاگن ” کی افتتاحی تقریب ہوئی, جو بعد میں ” ہماری زبان ” کے نام سے ریلیز ہوکر کراچی کی پہلی فلم کہلائی. اس فلم کی پروڈیوسر ایک خاتون بینا تھیں ، جو اس فلم کی ہیروئن بھی تھیں۔اس فلم کا موضوع ہماری قومی زبان تردو۔

دیوان سرداری لال کے کراچی اسٹوڈیو میں فیڈرل اسٹوڈیو سے ٹریک کیمرہ منتقل ہوگیا, جہاں فلم ” لالا رخ ” کی اوپننگ کی گئی, لاہور سے دور کے یہاں آشا یہاں اس فلم میں کام کرنے کے لیے آئے. فیڈرل اسٹوڈیو کی فلم ” سدا سہاگن ” بھی یہاں منتقل ہوگئی ، جہاں اس کا نام ” ہماری زبان ” ہوگیا۔ معروف فلم ساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا نے ان ہی دنوں اس میں اپنی فلم ” انتخاب ” کا آغاز کردیا۔ نیر سلطانہ کو پہلی بار اس فلم میں کاسٹ کیا۔ یہ 1953 ء کا بھی ذکر ہے, جب کراچی کی نامور و و خاندان ہارون فیملی نے ایک جدید بنانے کے لیے قدم جس کے لیے منور چاچا کی خدمات حاصل کی اس طرح منگھو پیر سائٹ ایریا کے علاقے میں ” ایسٹرن فلم اسٹوڈیو ” کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔

ہارون فیملی کے سعید اے ہارون نے اس اسٹوڈیو کو کینیڈا اور سنگاپور پلان کے تحت جدید طرز سے ہم آہنگ کیا۔ باقاعدہ ایک ایگریمنٹ کے تحت تمام انسٹرومنٹ پاکستان منوائے گئے۔ کراچی اسٹوڈیو سے سائونڈ ٹریک اور کیمرہ ملکہ پکھراج نےلاہور منگوالیا, جس کی وجہ سے کراچی میں سازی کا عمل مشکل ہوگیا, بننے والی ایک فلم ” منڈی ” لاہور کے شاہ نور اسٹوڈیو میں شفٹ ہوگئی. باقی ماندہ فلمیں ایسٹرن اسٹوڈیو میں آگئیں۔ دیوان سرداری لال اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے واپس لاہور چلے گئے اور پھر وہ بھارت منتقل ہوگئے۔

اس طرح کراچی کے پہلے باقاعدہ جدید اسٹوڈیو ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں فلموں کی پروڈکشن کا آغاز ہوگیا۔ ” ہماری زبان”یہاں بننے والی پہلی ریلیز فلم قرار پائی, جس کی نمائش 24 مئی 1954 ء عیدالفطر کے دن کراچی کے ناز سنیما میں یہاں دوسری فلم ایورریڈی پکچرز کے جے سی آنند نے ” ہیر ” کے نام سے شروع کی, یہ کراچی میں بننے والی پہلی اور اب تک آخری پنجابی فلم ہے ، جس کے ہدایت نذیر تھے ، اس طرح فلم ا پاکستان کی پہلی سندھی فلم عمر ماروی ، پہلی صدارتی ایوارڈ یافتہ فلم ” اور بھی غم ہیں ” بھی یہاں تیار کی گئیں اے جی مرزا اس اسٹوڈیو کے پہلے منیجنگ ڈائریکٹر تھے ، اس اسٹوڈیو سائونڈ پروف فلور کے علاوہ دوزک ی ی

یہ اپنے زمانے کا ایک مکمل نگار خانہ تھا۔ جہاں جدید طرز کے تمام انسٹرومنٹ موجود تھے ، لاہور کے کئی فلم ساز بھی یہاں کے ججدیا لیب میں پر ل لیوفم لوی ےن ت ت اپنے دور میں کئی یادگار کام یاب فلمیں یہاں تیار ہوکر سنیما پر کی گئیں ، جن کے باکس آفس بزنخشس ے۔ ابامی صم ست وکر سنما پر کی گئیں ، جن کے باکس آفس بزنخشس ے۔ الامی صم ست اباومی مم ست اس اسٹوڈیو میں جاپان سے جدید مشینری منگوا کر نصب کی گئی۔ جے بی کیلی سائونڈ سسٹم نیورال, ایزی میلیکس کیمرے, ایری لیبارٹری جدید ایڈیٹنگ ٹیبل, بیگ پروجیکشن, جسے اس کے مہنگے اور جدید میکسنگ کا سامان تھا, جس جولے کی خدمات لیں گئیں.

کراچی میں ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کے سندھ شہر گمبٹ میں فن شناس وڈیرے فقیر سید صلاح نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ” فقیر فلم اسٹوڈیو گمبٹ سندھ میں قائم جہاں پر 1956 ء میں سپر ہٹ پنجابی فلم ” جبرو ” بنائی گئی, جس نے اداکار اکمل کو بطور ہیرو پہلی بار متعارف کروایا۔ واضح رہے کہ اداکار اکمل مرحوم کو پنجابی باکس آفس کے اسٹار کا اعزاز حاصل ہے, جبرو پہلی ایکشن پنجابی فلم تھی, نے پنجابی فلموں میں حرمت کے موضوع کو فروغ گمبٹ کا یہ اسٹوڈیو اپنے سائونڈ سسٹم کی وجہ سے بے حد جدید تھا.

فقیر سید صلاح الدین ایک باذوق موسیقی نواز شخص تھے ، اس ان کا ایک سنیما فقیر کے نام ایک بھی موجوٹد زیئیویں اویںد ویں ” جوسور ‘ اس کے بعد ایک اور اردو فلم ” کالے لوگ ” کا بھی کچھ کام اس اسٹوڈیو میں ہوا۔ 1967 ء میں کراچی میں ایک اور فلم اسٹوڈیو ” ماڈرن ” کے نام سے وجود میں آیا ، اس کے بنانے والے مصنور ڈائر تھے۔ مصنور ڈائر کے بیٹے عبدل ڈائر اس اسٹوڈیو کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ یہاں سب سے پہلے فلم ” ہمدم ” کی شوٹنگ ہوئی۔ یہ بھی منگھوپیر روڈ پر واقع تھا۔ اس اسٹوڈیو کا یہ اعزاز ہے کہ یہاں پہلی گجراتی فلم ” ماں تے ماں ” پہلی پشتو فلم ” یوسف خان شہر بانو ”, پہلی پاکستانی انگریزی فلم ” بیانڈ دی لاسٹ مائونٹین ” بنائی گئیں, جب کہ کراچی کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ” نادان ” بھی یہاں بنائی گئیں۔

1972 ء میں مسٹر سی اے رئوف نے کراچی میں نام تعمیر کیا, یہاں بننے والی پہلی فلم ” چوری میرا کام ” تھی پاکستان کی پہلی ویژول ایفکٹ فلم جس فلم ساز و ہدایتکار سعید رضوی تھے. سعید رضوی کا ذکر بھی اسٹوڈیو آنر کے طور پر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے ایک سائونڈ اسٹوڈیو نوویٹاس بنایا ، جہاں فلموں اور کمرشل کی میکنگ ہوتی تھی۔ یہ تھا ایک مختصر جائزہ کراچی فلم اسٹوڈیوز اب قصہ ہم سے گلہ کررہے ہیں۔اب زیادہ فلمیں بن الوز کک ومم ں اوالو وڈیم ہیں و اور ستریخی لت



About admin

Check Also

تھیٹر سے عشق ہے

شو بزنس کی چمکتی دمکتی دُنیا میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *