کا وقار کیسے بحال ہو !!

برطانیہ کے ممتاز ڈراما نگار شیکسپئر کو اسٹیج ڈراموں کے حوالے سے جو مقام حاصل ہوا ، وہاں آج تک کو س پہنچ ان کے ڈرامے آج بھی شائقین دل چسپی سے دیکھتے اور پسند کرتے ہیں۔ برِصغیر پاک و ہند میں آغا حشر کو اردو زبان کا شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے۔ آغا حشر ایک بڑے کہانی و ڈراما نگار تھے۔ ان کے تحریر کردہ کھیل ” رستم و سہراب ” نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ اسی طرح ممتاز ڈراما نگار امتیاز علی تاج کا نام بھی اردو تھیٹر ڈراموں میں اہم مقام رکھتا ہے۔

وہ کالج کے زمانے ہی سے شیکسپئر سمیت بلند پایہ انگریزی ڈراموں کو اردو ترجمہ کے بعد اسٹیج پر پیش کرتے تھے۔ 1923 ء میں”انار کلی ” کے نام سے ایک ڈراما پیش کیا ، اردو اسٹیج ڈراموں میں سنگ میل کا درجہ رکھتاا میںد بر ت د د در اسی ڈرامے نے آگے چل کر ” مغل اعظم”جیسی شاہ کار فلم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب جدید ٹیکنا لوجی کے ثمرات موجود نہ تھے۔ شوق و جنون اور ان تھک محنت کے ساتھ ڈرامے پیش کیے جاتے اور کام یابی حاصل کیا کرتے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد تھیٹر کی دنیا میں دونوں ملکوں کے معیار پر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ آزادی کے بعد تھیٹر میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی تشکیل کا دور شروع ہوا۔ ان گروپوں کی کام یابی میں بڑا ہاتھ ڈراما نگارخواجہ الدین کا رہا, ان کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ زندگی سے قریب نظر ہیں.ان کے ڈراموں کے کردار زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ان کے مشہور ڈرامے”لال قلعے سے لالو کھیت تک ” اور ” مرزا غالب بندر روڈ پر ” جیسے رول ماڈل ڈرامے پیش کیے ہیں ، ، پاکستان میں تھیٹر بقاء کے لیے رفیع ۔ےزادہ گھم بنے ن

رفتہ رفتہ تھیٹر ڈراموں نے رُخ بدلا اور اس کا مزاح نگاری کی طرف زیادہ رجحان ہو گیا۔ عالمی شہرت یافتہ فن کار معین اختر کے بعد پاکستان کو دوسرا حاضر جواب مزاح نگار عاب کے ۔اپا میں ساوگید د ساتنگی د الم سااوگید ان کے ڈرامے”بڈھا گھر پر ہے ” اور ” بکرا قسطوں پر ” جیسے کام یاب اسٹیج ڈرامںوں نے وڈیصو کیمکیٹس کے و و کیمسقب ی ریعے بتھر مد

بھارت میں کئی فلموں میں ان کے ڈرامے نقل کیے گئے۔ اسی طرح لاہور اسٹیج پر ناہید خانم ، ببو برال ، مستانہ اور امان اللہ نئے انداز کے ساتھ جلوہ گرہو ئے۔ یہ وہ دور تھا ، جب پڑھے لکھے اور قابل لوگ میں دل چسپی لے رہے تھے کہ اور اعلیٰ درجے کی انگاری کےم سااہےاہے م و م و اوجد مو اوج رسٹیج اوجد مو اوجد مہو اوج اس سلسلے میں اجوکا تھیٹر ہو یا ناپا اکیڈمی کے سربراہ اور بین شہرت یافتہ فن کار ضیاء محی الدیاد اص الدیاد ان ن ب لتو مل

اسی طرح کاپی کیٹس پروڈکشن کے تحت داور محمود نے انور مقصود لکھے ڈرامے ” پونے چودہ اگست ”, ” سوا چودہ ” انگن تیڑھا اور ” ہاف پلیٹ ” جیسے کام یاب ڈرامے تھیٹر پر پیش کیے. ان ڈراموں میں پاکستان کے حوالے سے کئی باتیں نئی ​​نسل کو سیکھنے کو ملیں۔

تھیٹر, فلم اور ٹی وی سے زیادہ پاور فل میڈیم جہاں پر فن کاروں کو ان کی پر فوری رسپانس ملتا تھیٹر کمرشل ہوا تو کی کردار نگاری اور ڈائیلاگ پر زندگی کی گئیں ایک اسٹیج فن کار جو سب کو ہنسانے کے لیے دیتا ہے, اس کے اپنے حالات زندگی کیا اس کے گھر کے کیا ہیں ، وہ کتنا پریشان دیے جاتے ہیں ، تو اسٹیج کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو گیا۔

شائستہ اطوار کی جگہ پھکڑ پن ، خراب زبان اور بیہودہ ڈانس نے لے لی۔ اسٹیج ڈرامے فیملی تفریح ​​کے لائق نہیں رہے ، کچھ نان لوگ جنہوں نے دُنیا کے بہترین کامیڈینز ہمارے یفحشاوا۔ارے یپاوہد ​​ج ووو ج ہوہ ب اوہد ج س بف امان اللہ جن کے پاس اسکرپٹ سے زیادہ کامیڈی تھی ، انہوں نے دیا ، لیکن بعد میں آنے والںوں یں

وہیں سے رقص کے نام پر غلط حرکات شروع ہوئیں ، فن کار شائقین اسٹیج دونوں بگڑ گئے اوہر کاری اور فن ککاروں کی ح بویڑ کی محنت اروں کی مقنت فحش رقص کرنے والی ڈانسر محض پانچ منٹ میں سارا شو لوٹنے لگی۔ مزاح جو کبھی اسٹیج کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا ، وہ اب بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دُنیا کے جو بہترین کامیڈینز ہمارے پاس ہیں ان سے کام لیا جائے۔



About admin

Check Also

تھیٹر سے عشق ہے

شو بزنس کی چمکتی دمکتی دُنیا میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *