سید منیب علی
سائنسدان صدیوں سے کائنات کی ابتدا اور انتہا کو کی کوششیں اب تک یہ ان کے لیے راز سے کم نہیں, ہر گزرتے دن ساتھ ایسی نئی معلومات معمے کو مزید بڑھا دیتی کائنات کی نومولود صورت کیسی تھی? سائنسدان سالوں سے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں۔ اس غرض سے 1990 ءمیں انہوں نے ہبل دوربین زمین گرد بھیجی ، جس کے ذریعے وہ کائنات کے کئی سربستہ سے اویہ ن بل دوربیا نب تا م اہیںیکوہ نیںب تا ابھی بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈھنے کے لیے ہمیں کائنات کو مزید باریکی سے دیکھنا ہوگا۔
اگرچہ سائنسدان ایکس ریز, انفراریڈ اور الٹرا وائلٹ روشنیوں کائنات کو دیکھ رہے ہیں ان کا خیال ہے ہبل مزید بڑی دوربین بنائی جو کائنات کی کی سے لاکھوں گنا بڑی ” قدرتی دوربینیں ” کائنات میں موجود ہوں? جی ہاں, کائنات میں قدرتی دوربینیں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم دور دراز کی کا بھی پتا لگا سکتے ہیں۔ لیکن ان دوربینوں اور ہماری دوربینوں میں فرق صرف میں جاتے ہیں اور وہ دوربینیں کا استعمال کرتی ہیں قریب سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ دوربین کام کس طرح کرتی ہے.دوربین دو یا دو سے زائد شیشوں (لینسز) پر مشتمل آلہ ہے۔
جیسے ہی روشنی شیشوں میں سے گزرتی ہے تو شیشے میں موجود مادّے کی وجہ سے ایک برقرار نہیں رکھ پاتی اور مڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد تمام روشنی کی شعائیں ایک نقطے پر کر ہیں جسے فزکس کی اصطلاح میں ” فوکل پوائنٹ ” کہتے ہیں.قدرتی دوربینوں کو سمجھنے لیے ہمیں سائنسدان آئن بنیادی نظریہ اضافیت کو سمجھنا ہوگا, جس مطابق کائنات میں زمان و مکاں کی چادر موجود ہے اور جو جسم جتنا مادّہ ہے ، وہ اتنا زیادہ اس چادر میں خم پیدا کرے گا۔ نظریہ اضافیت کے مطابق خم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس جسم کی کشش بھی زیادہ ہوگی۔ روشنی جب اس جسم کے پاس سے گزرے گی تو کشش کی وجہ سے ایک سیدھ میں رہے گی اور مڑ جائے گی۔
لیکن ایک عام خیال ہے کہ ” روشنی ہمیشہ ایک سیدھ میں چلتی ہے اور کبھی اپنا راستہ نہیں باداتی ” تو کیا وہ ہےلج پڑھتا ہرگز نہیں! یہ بات سو فی صد درست ہے۔ نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی زمان و مکاں کے ایک سیدھ میں رہتی ہے لیکن اس چادر میں مادّے پیدا ہجہونے ال تو ب
قدرتی دوربینوں کا بھی کچھ ایسا ہی طریقہ کار ہے جن سے ان کو دیکھا جاسکتا ہے جو کائنات کی گہرائیوں میں گم ہیں۔ ان دور دراز کی کہکشاؤں اور زمین کے درمیان دوسری (بڑی) کہکشاں ہوتی ہے جو لینس کا کام کرتی ہے۔ اس کہکشاں کی کشش دور سے آنے والی روشنی کو موڑ دیتی ہے اور وہ کہکشاں اس کہکشاں کے پیچھے ہونے کے باوجود اس کے گ۔د نظر گرد نظر
جب ماہر فلکیات آسمان میں ایسی کو انہیں گرد کسی اور دور دراز کی بھی دیکھنے کو جاتی ہے ، کہکشاں کہکشاںا چھپیوا چھپیکوی سوی س و چوں کہ اس امر کی سب سے پہلے پیش گوئی ا سٹائن نے کی تھی اس کہکشاؤں کی دائروی کو ” نام کے جو سوال میں ہے وہ یہ کہ سائنسدان کیسے پتا لگاتے ہیں کہ تصویر میں نظر آنے والا دائرہ کسی اور کی بگڑی ہوئی شکل ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام کہکشائیں بیضوی شکل کی ہیں۔ اس کا مطلب کہ یہ دائرہ کسی قدرتی کرشمے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے سائنسدان اس نظارے کی کچھ کرتے کسی بڑی کہکشاں کی کشش ثقل وجہ سے پچھلی کہکشاں کی کا مڑ اور آئن اسٹائن رنگز کا وجود آنا ” گریوٹیشنل لینزنگ ” کہلاتا ہے .1915 ءمیں بنیادی نظریہ اضافیت کے شائع ہونے کے بعد لوگ اس نظر با قاعدہ آشنا ہوئے برطانوی حساب دان سر آرتھر ایڈنگٹن نے گرہن کے دوران کے اضافیت کی توثیق و تصدیق کی, جس کے مطابق کشش ثقل کے باعث روشنی کی شعاؤں کے راستوں میں خم آجاتے ہیں.
1919 ءمیں اس بات کے ثابت ہونے کے بعد ماہرین نے کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے یہ بات معلوم کی کہ اگر کوئی کہکشاں بڑی کہکشاں کے پیچھے اس ترتیب میں چھپی کہ زمین اور یہ کہکشائیں ایک سیدھ تو صرف تب ہی ” آئن ا سٹائن ” کا نظارہ دیکھنے کو مل سکتا ہے, اس کے علاوہ اگر یہ دونوں زمین سے ایک سیدھ میں نہیں گی تو چھپی ہوئی کہکشاں کا کچھ حصہ ایک جانب اور باقی حصہ دوسری جانب سے نظر آئے گا۔ اس بےترتیبی کی وجہ سے چھپی ہوئی کہکشاں کے چار روشن حصے بڑی کہکشاں کے گرد دکھائی دیں گے۔
اسے ” آئن اسٹائن کراس ” کہا جاتا ہے.گریوٹیشنل لینزنگ کا ایک اور فائدہ بھی ہے کہ کشش ثقل کی سے سے صرف قابل بصیرت روشنی مڑتی ایکس ریز, انفراریڈ اور الٹرا وائلٹ ان روشنیوں میں بھی گریوٹیشنل لینزنگ کی مدد لے سکتے ہیں. بہرحال, کائنات میں قدرتی دوربین, قدرتی مشعلیں اور ان جیسی اور سی چیزیں ہیں جو انسانوں کو مبتلا کر رہی ہیں سائنسدان کے ذریعے کائنات کی ابتدا و انتہاء کھوجنے میں مصروف