” نغمہ بیگم ” ان کی فلم ” مہتاب ” نے گولڈن جوبلی کا اعزاز پایا

پاکستانی سلور اسکرین پر اپنے فن کی طویل ترین اننگز کھیلنے والی کارائوں میں تین نام سب سے نمایاں ہیں, میں بہار بیگم, دیبا خانم اور نغمہ بیگم کے نام شامل ہیں. یہ منجھی ہوئی اداکارائیں ، سات دہائیوں کی طویل ترین فنی مسافت طے کرنے کے باوجود ہنوز بفضل تعالیٰ محو سفر۔ دیبا بیگم بڑی اسکرین سے چھوٹی اسکرین کی جانب مراجعت کر گئی ہیں ، پُوری توانائی کے ساتھ اپنے کام سے اصہیاف کر ر جب کہ بہار بیگم اور نغمہ بیگم بچے کھچے سینما سے آج بھی جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارا آج کا موضوع نغمہ بیگم ہیں۔ کہ 25 مارچ 1946 کو ایک متوسط ​​گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے ان کا نام زبیدہ رکھا گیا۔

زبیدہ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھریلو ضروریات پیش نظر فلم لائن جو آئن فیصلہ کیا, کیوں فیملی بڑی تھی اور ذرائع آمدنی محدود, سات بہن بھائی کوشش بسیار کے بعد ہدایت کار ایم جے رانا کی ” رانی خان ” میں ایک مختصر سا کردار مل گیا۔ تاہم ہدایت کار مظفر طاہر نے اپنی پنجابی فلم ” چوہدری ” میں انہیں نامور ہیرو اکمل کی ہیروئن بنا دیا۔ فلم ” چوہدری نے باکس آفس پر اچھا بزنس کیا۔ ” چوہدری ” 1962 میں منظر عام پر آئی۔

اسی سال ہدایت کار شباب کیرانوی کی شان دار گھریلو فلم ” مہتاب ” میں وہ کہانی کے ہیرو علائو الدین کی ہیروئن بنیں, کہ فلم ” مہتاب ” میں دوسرا پیئر حبیب اور نیر سلطانہ پر مشتمل تھا. اکمل ، اعجاز ، حبیب اور سدھیر کے ساتھ ان کی جوڑی بھی کام یاب رہی۔ نغمہ نے ایک ماڈرن مغرور لڑکی کا کردار محنت اور خُوب صورتی سے ۔مہتاب نے باکس آفس پر شان پلاااا پر شان پلصاا کا وربی حعصال کام یوربز حعصال ۔ر شان حعصال کا اب حع نغمہ کے لیے یہ پہلا بڑا بریک تھرو تھا۔

اگلے سال یعنی 1963 میں ایک بار پھر شباب کیرانوی کی سوشل ڈراما مووی ” ماں کے آنسو ” میں وہ رویںن کی ہیر ۔ن بنن کی ہیر ن بن ن ” ماں کے آنسو ” نے بھی شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ ابتدائی برسوں میں یکے بعد دیگرے 2 عدد فلموں کی گ ولڈن جوبلی نے نغمہ کو اردو اور پنجابی مکے تمام یلم متوجہ کلم تجہرد ک اسلم ایرانی کی ” ڈاچی ” ان کی پہلی پنجاب بگ ہوئی, جب کہ اسی سال یعنی 1964 میں ہدایت کار ریاض احمد کی سوشل ایکشن فلم ” خاندان ” نے بھی شان دار بزنس کیا, جس وہ محمد علی کی ہیروئن تھی. محمد علی کے ساتھ ان پر پیکچرائز سدا بہار گانا ” حال کیسا ہے جناب کا ” آج بھی ہٹ اور مقبول ہے۔ معروف کامیڈین نذر نے اپنی ذاتی پروڈکشن ” انسپکٹر ” میں انہیں اپنی ہیروئن کی حیثیت سے کاسٹ کیا ، لیک ” فلم ” انسپکٹر

تاہم اسلم ایرانی کی ہتھ جوڑی ، میں وہ اکمل کی ہیروئن بنیں اور ” ہتھ جوڑی ” بے حد کام یاب رہی۔ ایم اکرم کی ” میدان”1968میں وہ سدھیر کی ہیروئن تھیں۔ ” میدان ” باکس آفس پر شاندار کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار ریاض احمد نے لوک داستانوں پر مبنی پنجابی فلم ” سسی پنوں ” میں نغمہ کو ” سسی ” اور نو آموز اقبال حسن کو ” پنوں ” کا روپ دیا, لیکن یہ فلم باکس آفس پر رنگ نہ جما.

ہر چند کہ ” نغمہ ” نے اپنے کردار سے پُورا انصاف کیا اور موسیقارحمٰن ورما ےے فلم کے مھیما یقییوب صورت ترور د لا ورت ترور د. 1968 تک“سسی پنوں”میں ان کا اب تک کا سب سے زیادہ طاقت ور کردار تھا۔ 1969 ان کے فنی کیریئر میں خاص اہمیت کا حامل سال تھاکہ ایک وہ ” دیا اور طوفان ” میں پہلی بار ینگ ٹو اولڈ کردار آئی تھیں, تو جوبلی منانے والی پنجابی فلم ” دلاں دے سودے ” کی ہیروئن بھی وہی تھیں. جب کہ فلم ” دیا اور طوفان ” میں اپنے چیلنجنگ رول میں بیگم فن کی بلندیوں پر دکھائی تو بڈیم”جہاائی لان بلہٹو ےلوہٹر بور ےالوھیر سطون سن سن سن

ان دونوں ہی فلموں میں ان کے ہیرو خوبرو اعجاز درانی تھے۔ اسی برس بھی 1969 میں خوبرو اعجاز دُرانی ہی کے ساتھ ان کی رومانی فلم ” تیرے عشق نچایا ” بھی شہاےار کام یاب یام اب ام یاب اگلا سال یعنی 1970 نغمہ بیگم کے لیے مزید کام یابیاں لےکر آیا۔ سدھیر کے ساتھ ہدایت کار ایم اکرم کی فلم ” چڑھدا سورج ” حبیب کے ساتھ خواجہ سرفراز کی فلمم”ا۔اُھب مدا د اا ب مود ما د سا سر ” بالخصوص فلم ” ات خدا دا ویر ” کا میڈم نوجہاں کا بخشی وزیر کی لافانی دھن تنویر نقوی اعلی شاعری سے آراستہ نغمہ بیگم پر پیکچرائز گیت ” جدو ہولی جئی لینا میرا ناں, میں تھاں مر جانیاں ” .یہ گیت نغمہ بیگم کی کردار نگاری کے ضمن میں اہم حوالہ بن کر ابھرا۔

1971 میں آنسو اور مستانہ ماہی نغمہ بیگم کی کردار نگاری سے سجی وہ فلمیں تھیں جنہوں نے باکس آفس پر رنگ جمایا۔ لیکن ان فلموں سے قبل 1970 کی ریلیز ، سدھیر کی سپر ہٹ فلم ” انورا ” کا ذکر رہ گیا کہ اس فلم نہ ہ ہ ہ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ کراچی میں کسی پنجابی فلم نے پہلی بار پلاٹینم جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ جہاں فلم ” انورا ” کی کہانی اور دیگر شعبے قابل تعریف تھے, وہیں نغمہ بیگم فلم بند سپر ہٹ گیت ” سن وے بلوری اکھ والیا ” کی, شاعری, گائیکی اور نغمہ کے رقص نے فلم غیر معمولی کام یابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فلم خان چاچا ، نظام ، انتقام ، سلطان ، نشان اور دولت تے غیرت ان کی کردار نگاری سے آراستہ بکس و بس و ب

1974 میں نغمہ بیگم فلم اسٹار حبیب کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک لیکن بد قسمتی سے یہ شادی ماہدہ قاپہ نہ ت سکیر حبیب سے ان کی ایک صاحب زادی ہے ، جس کا نام سعیدہ ہے ، جسے حبیب نے بہ خوشی کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ بعد ازیں نغمہ نے دوبارہ شادی نہیں کی .دل یہ ہے کہ دو دلوں کی کے بعد کسی جانب سے دوسرے کے خلاف کبھی نہیں ہوئی, حبیب ہوں یا نغمہ دوسرے حوالے کوئی بات کی تو نہایت احترام سے کی .فلمی دنیا میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ نغمہ کی بہ طور ہیروئن آخری فلم ” میرا نام راجا ” تھی ، جس کے ہیرو حبیب تھے۔ بعد ازاں نغمہ نے بہ طور ساتھی اداکارہ اپنا کیریئر جاری رکھا۔ اور ایس اے بخاری کی فلم ” کس نام سے پکاروں”میں اپنی فنی زندگی کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔

اس فلم میں ان کی بےمثل کردار نگاری کو آج یاد کیا جاتا ہے.نامور ہدایت کار فاضل کی فلم ” بازار حسن ” اور اقبال کشمیری کی ” چوروں کی بارات ” میں بھی ان کے کردار اور کردار نگاری کا جواب نہیں تھا ۔ ریوائیول آف سینما کے تحت بننے والی سیمی آرٹ مووی ‘پطرس کی ماں کا اس خوبی سے نبھایا انہیں ایک ادارے کی جانب سے 2018 میں ان کی دو عدد فلمیں’ ‘فیصلہ گجردا’ ‘اور’ ‘گڈ مارننگ پاکستان’ ‘اب تک کی آخری فلمیں ہیں۔اس طرح کی ہوئی اداکائیں اب کم کم نظر اتی



About admin

Check Also

نہ بینڈ، نہ باراتی، ’’مدیحہ امام‘‘ بھی پیادیس سدھار گئیں

نئی نسل کے فن کاروں کی شادیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ خوش آیند …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *