مصنوعی ذہانت ، انسانی تاریخ کا بڑا انقلاب

مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپیوٹرسائنس کا ایک ایسا ذیلی شعبہ ہے ، جس میں ذہاننت (ےا کاواپ حثانت (ا کاواپ حث مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ڈاکٹر رے کروزویل کے مطابق 2045 ء تک دنیا یک گی کروزویل وہ مستقبل بین ہیں, جن کی ماضی میں کی گئی 86 فی صد پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں.کروزویل کہتے ہیں مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو الیکٹرانک کردے گی, جو جسمانی خلیوں کے میں بہت بہتر ہوں گے. 2030 ء کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرانک میڈیم سے نقل کرنے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔

بنیادی طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا سے کئی گنا زیادہ سوچنے ، سمجھنے عمل کر دکھانے والی مشین کی تیا۔نی س سائ نصف صدی کے اس سفر میں تیز تر تحقیق کا عالم کہ آج انسان مصنوعی انسانی دماغ ‘اِ مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی’ کیوا تخلیق کے منر ےوا تخلیق کے منر مصنوعی ذہانت ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بامِ عروج پر پہنچانے کی ایک انسانی کاوش ہے۔ اسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا نام دینے والے سائنس دان جان میک کارتھی اسے ایسی مشینیں بنانے کی س سائنا وا رت تیا، ن رت تیا

اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسٹورٹ رسل اور پیٹر اس پر اپنی کتاب میں مشینوں دفعہ انٹیلی اصطلاح پوری صلاحیت کےحامل ہوں تاکہ ماحول ان سے برتاؤ کر سکے, جس سے ناصرف انسان کے کام کرنے کی رفتار بڑھ جائے گی آخری حد تک درست نتیجے کا حصول بھی ممکن ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب اور سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لیےچار بنیادی ‘مکاتبِ فکر سے واقفیت ضروری ہے۔ پہلے مکتبِ فکر کے روحِ رواں رسل ، نوروِگ اور جان ر ر جن کے مطابق مصنوعی ذہاںت اصل مقصد ایسی اکھون مد ایل ب اون ن ون بن ور ب دوسرے مکتبِ فکر کا لبِ لباب ہے کے قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے ماحول کو ہوئے ردِ سر کی. سکے, ایک قابل ذکر مثال روبوٹس ہیں, جو ٹیکنالوجی میں روز ترقی سے اس قابل ہو گئے ہیں فوری فیصلہ کر سکیں مگر بھی ان کے افعال بہت حد تک ‘اس کے علاوہ کمپیوٹرز ساکن تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے متعلقہ شخص یا جگہ کے متعلق ویژوئل فراہم کرتے ہیں ، یہ بھی ذہین مشینوں کی ایک جہت ہے۔

مصنوعی ذہانت کے تیسرے مکتب فکر کا تعلق انسانی تسخیر کرنے کی صلاحیت سے ہے, ایسے ماڈلز بنائے جائیں, جن ذریعے انسانی دماغ کو سکے اور جانا سکے کہ والے اور مرہ کی اشیا کو کس طرح سمجھتا ہے? جب کہ آخری مکتبِ فکر ان تیکنیکس سے متعلق ہے ، جن سے مشین اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ انسان سے ہد ۔د اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر میسر مختلف سرچ انجن ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو تیسرے اور چوتھے کی تمام تر اساس ہمارا دماغ کرنے کیا لاحیت پمپ ااا م م م ز اوا ن نسر عو ن ن نس ترع

گوگل سرچ ، آئی بی ایم واٹسن ، جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ ، صنعتوں ، معاشیات ظو اسشل میڈیا ، م ل لچا ، ص گزشتہ 50 برس میں جو ایجادات اور تحقیقی مواد سامنے آیا ہے, وہ ایک حد تک کمزور یا محدود ذہانت حصہ تھا, جیسے کہ پہچاننا, انٹرنیٹ انجن, کے ذریعے کام طریقے سے سر انجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں.

محققین کے لیے یہ مصنوعی ذہانت کم کیونکہ پروگرام ٹیکنالوجی کو اس حد تک کہ مشین انسان آپریٹ کیے جس کی ایک مثال ہیومنائڈ انسان نما روبوٹس ہیں, جن پر کام کیا ایسے لاکھوں کی تعداد میں روبوٹس چکے ہیں جو کنٹرول ہیں.

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہماری زندگی میں مصنوعی کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر انسان کی اہمیت کو کاد کو اس تکے م م لوگ ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی ذاتی خداداد صفات پر انحصار ترک کرتے جا رہے ہیں۔ معروف برطانوی مفکر اور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی ذہانت کو انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کو اس طرح ترقی دی جائے وہ انسانیت کی ک اطو انیت کی صحیح ک اطو ن ن ن ر ترو یج د م اطو ن ن ن ترت د م کی او ن ن م او ن ر ترو یج



About admin

Check Also

اِبن الہیثم، دنیا کا پہلا حقیقی سائنس دان

بطور طالب علم آپ نے ابو علی الحسن اِبن الہیثم کا نام ضرور سُنا ہوگا۔ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *