فکشن میں فکریات کا شعوری التزام

اگر صاف لفظوں میں پوچھیں گے ، تو مجھے کہنا ہو گا کہ افسانے کہانی میں کسی فلسفے یا نظریے کو ڈال دینا با ن جا با نہیںل جا لیکن صاحب! فکشن کے ذریعے کسی پیغام یا نظریے ترسیل کا معاملہ اِتنا سادہ نہیں ہے کہ یاوں صاف صاف فیاا ا صاف نفیا وا او مس م ! ایک مچھلی پر آپ کیسے قدغن لگا سکتے ہیں کہ وہ پانی میں تیرتی رہے مگر گیلی نہ ہو۔ فکریات میں رچے بسے آدمی کی تخلیقات سے اس کی فکریات کا چھلک پڑنا خلاف واقعہ نہیں ہے۔ تاہم میرا اس بات پرایمان ہے کہ ادب کی روایت انسان دوستی کی روایت ہے۔

اس کا مطالعہ کسی بھی فلسفے کی روشنی میں یا نظریے اور فکر کے حوالے سے کیا توجا ہے مگر تخلیقی عمل فکریات کا شعوری کو ناقص, دیتا کسی خاص فکر کے زیر اثر ایسا نہیں کرتا, کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ متنوع نظریات کا وہ عطر جس کی مہک سب آتی ہے ، سب کے قابل قبول ہو جاتی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب ہم نظریات کی زمین پر قدم رکھتے توساتھ ہی اس یقین کی زمین پر بھی قدم رکھ ےایںا ظم کھمکی ہے د دم ہیںہ د ہ م ت ت د

دوسروں کی فکریات کی نفی کے بغیر آپ کا اپنا دعویٰ مکمل نہیں ہو پاتا۔ اگر آپ تجزیہ کرنے بیٹھیں تواس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ لگ سب نظریات انسان اور انسانیت کی فلاح اویاپپپ د د بو یقیع کتنی عجیب بات ہے سب کی منزل ایک ہے مگر کا راستہ جدا ہے ۔کہہ لیجئے کہ نظریات اور سے وابستگی موزل ےئیںاوا ہیںجوہے وہے وہے وہے وہے وہے وہے و ت ست ت تن ر

آپ نے بسوں کے اڈے پر نظارہ ہوگا کہ ایک ہی منزل پر جانے والی کی بسیں چلنے کو ہوتی ہیں ککوا ۔کر ۔ر اس اپن ت ت ر ر نظریات اور فکریات کی کھینچاتانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بس اسٹاپ والی کھنچا تانی میں ، ہم نے مسافروں کے کپڑے پھٹتے دیکھے ہیں جب کہ اور فکری کھینچاتانی میں ۔ھڑےاُڑ اُڑسان کے چیت

گذشتہ صدی میں انسان اور انسانیت کے چیتھڑے اڑنے کا نظارہ سب نے دیکھا ہے ، یہی دہشت گردی ہے۔ تہذیبی اکھاڑ پچھاڑ کو ہم نے دیکھا۔لسانی سطح پر بگاڑ کا مشاہدہ ہم کرتے رہے۔ سیاسی عدم استحکام سے لے کر جذباتی انتشار تک کیسے کیسے دہشت کے ہیں جو گزری صدی کی کوکھ سے نکل کر رواں کے کندھوں کا بوجھ ہو گئے ہیں غالبا یہ گلزار کا ایک افسانہ تھا جس میں ایک ویران سے پل پر دو ایسے اشخاص سامنے آ جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔

مجھے افسانے کا نام یاد نہیں, بس اتنا یاد رہ ہے یہ ہندو مسلم فسادات کی دہشت فضا کے بارے تھا جس میں سے ایک دوسرے ” اللہ اکبر ” کہہ کر پل سے نیچے اچھال دیتا ہے, اس خوف سے کہ کہیں مقابل اس پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ دوسرا کلمہ پڑھ کر موت کے منہ میں جا رہا ہوتا ہے اور سے خوف کی وہ فضا بنتی ہے جس میں ہر دو۔راشخص دشمن نظر تن فکریات کا یہی شاخسانہ ہے کہ حملہ جنت اور ملن کا گماں باندھے ہوئے ہیں اور فکر کے تحت ہم کا نقانہااا ا ا نہانااااا ا نہانہا و ن د کہہوکر لر

نظریات اپنی جگہ بہت اعلیٰ ہو سکتے ہیں ، ہوتے بھی مگر مگر سے منسلک افراد اور سماج سطح پر اییااج طحہ پر اییاا طحہ ر اییاا کیہ ر س ا ت ت تا کہا جاتا ہے اگر کوئی شخص تمہیں ایک تھپڑ مارے تو اس کو تھپڑ مارنے کی بہ جائے دوسرا گال آگے کردو۔ تو کیا ایسا ہی ہو رہا ہے؟ نہیں نا۔ تو یوں ہے کہ فکریات میں تشدد کو قرار دینے, اپنی فکر سے وابستہ تاویلات کے لگا لیے جاتے ہیں وہ نظریہ سطح پر وہ نہیں رہتا سے آپ کرنا چاہتے ان تاویلات سے جڑنا دراصل فکری پروپیگنڈا ہے جس کی ادب میں گنجائش نہیں ہوتی اور افسانے میں تو بالکل نہیں۔

فکشن تونظریات کے اس ملبے تلے دبے انسان کا بوجھ کم کرنا چاہتا ہے مگر ایسا وہ ردعمل میں نہیں کےاعا انےت قر جی ، فکشن دھیمے پن کو شعار کرتا ہے۔ صورت حال کو سہار کر اس کا مشاہدہ کرتا انسانی حسیات سے معاملہ کرنے دیتا ہوئے اس انسان دوستی عطر سے اپنے کر لیتا سکتے کہ کا تصور مذہبی بھی ہو سکتا ہے اور غیر مذہبی بھی, اور ثقافتی ہو سکتا ہے اور سیاسی مگر فکشن میں انسان کا ان سب سے مقطر ہو کر بھی کے تابع نہیں



About admin

Check Also

ادب میں نئی تحریک کا سوال

یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن یہ کوئی طبع زاد یا بالکل نیا اور اچھوتا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *