مولانا شعیب احمد فردوس
اسلامی سن ہجری کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے۔ محرم کا معنی ہے “عزت واحترام والا”۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: بے شک ، مہینوں کی کے نزدیک بارہ ہے۔جس دن سے زمین و آسمان تخلیق کیے ان میان میں سے چار علوخصن بان میں سے چار ع.
تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں سے مراد محرم ، رجب ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ عام طورپر محرم کی دس تاریخ کو “یوم عاشور” کہا جاتا ہے۔یوم عاشور کے معنی ہیں دسواں دن۔ تاریخ میں اس بات کاثبوت ملتا ہے کہ اہل قریش قبل از اسلام بھی اس دن کا احترام کیا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بات موجود ہے کہ: “قریش ایام جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ تھے اور نبی کریم صلی علیہ وسلم بھی اس روزہ رکھتے آپ اللہ لائے تو یہاں بھی روزہ اور اس روزے کا حکم بھی دیا جب رمضان کے فرض ہوئے تو. کے روزے کے حکم (یعنی فرضیت) کو ختم کر دیا گیا ، یعنی جو چاہے (عاشورہ کا) روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح: 2002)
احادیث مبارکہ کی مستند و مشہور روایات سے معلوم ہوتا کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت پہلے محرم الحرام کی دس تاریخ یوم عاشور کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر لازمی ضروری تھا. (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدیکےنہ اہیںدوکھ وکھن شکہو کھور اوکھد لویر اوکھ لویر یہاوکھ ل تور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ یہودیوں نے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرئیل کو ان کےدشمن (فرعون) سے نجات دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کو غلبہ اور کامیابی عطا فرمائی۔ہم اس دن کی تعےم کےلئے (بہ طور شکرکھوت) رت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عالیہ ۔ل عاشاو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے: اللہ کے! یہ وہ دن ہے جس کی یہودونصاریٰ تعظیم کر تے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب اگلا سال آئے گا اگر اگر اللہ چاہا تو ہم نوتاریخ کا روزہ (بھی) ر ()
یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ تعالی قرآن میں جہاں حرمت والے مہینوں (یعنی محرم, رجب, ذوالقعدہ, ذوالحجہ) کا ذکر فرمایا, اس کے ساتھ ہی بھی فرما دیا کہ “ان حرمت والے مہینوں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو “(التوبہ: 36) ااور اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنے سے مراد یہ ہی ہےکہ ان حرمت والے مہیانوں میں گنہا ۔اوخ من رت سے چ