شہاب ثاقب (میٹیورائٹ) دراصل سیارچوں یا دم دار ستاروں (کومیٹ) سے خارج ہونے گزوالے پہٹھوس پتھ کےا و انہیں شہابیہ اور عام اردو میں گرتے ہوئےستارے بھی کہا جاتا ہے۔
درحقیقت یہ شہاب (meteoroid) یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرۂ ہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اوردباؤ اور رگڑ کی وجہ سے ہیںمک تپید جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیمیا کرے اس یہ اااا کک اس پ ااا شہابیے کو اردو میں ” سنگ شہاب ” بھی کہتے ہیں۔
اس دوران ہوا کے ساتھ رگڑ, دباؤ یا کیمیائی باعث ان میں آگ بھڑک اٹھتی, جس کے نتیجے توانائی کا اخراج ہوتا اور یہ شہابیے کے گولوں کی شکل تارے بھی کہا ہے.اکثر اوقات یہ اس شدید حدت اور رگڑ کی وجہ سے ہوا ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں ، تاہم کبھی کبھار ایسا ہے کہ کوئی شہاب ثاقب زمین پر
ماہرین کے مطابق شہابِ ثاقب دراصل ساڑھے سال قبل شمسی کی تخلیق کے بعد بچ ملبہ ہیں اور اےب یہ کیوا کیب یہ جزاوا کیب سم اجوا ابت ست ر اوا کیب ست ر
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے ثاقب ٹکرانے کے واقعات میں اضافہ ہے.امریکی خلائی سائنس دانوں کے مطابق سے کہیں زیادہ خطرناک صورت حال کسی نئےشہاب ثاقب سےپیدا میں خلائی پتھر گرنے کی تاریخ ہے .اس طر ح کئی پتھر پاکستان میں چکے ہیں ۔جن سے گئے ہیں۔
عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس 18 ویں صدی سے 2020 تک تقریبا 17 شہاب ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں صوبہ پنجاب اور میں گرے ہیں.ان میں سے بلوچستان کے ژوب میں گرنے میٹیورائٹ کی ہی باقاعدہ تصدیق اور تجزیہ ہو سکا ہے۔ گلگت بلتستان اور پنجاب کے ضلع بھکر میں بھی شہاب ثاقب گرے ان کے بارے میں کچھ مجلومات دستیاب ڈیٹ۔اگیات دستاب ہیں۔ایا م ال م ال اب م من مل ت
2019 ءمیں ناسا گوڈارڈا سپیس فلائٹ سینٹر اور توہوکو یونیورسٹی نے تین شہاب ثاقب پر تحقیق کی, جس سے معلوم کہ ان میں شکر کے موجود تھے جب کہ سے پہلے زندگی ایسڈ اور نیوکلیوبیسز شہاب ثاقب دریافت ہو چکے ہیں.ہمارے نظام شمسی میں ایک طویل بیضوی مدار میں فیتھون 3200 نامی سیارچہ (اسٹرائیڈ) چکر کاٹ رہا ہے۔ ہر سال دسمبر میں یہ زمینی مدار کو کاٹتے ہوئے گزرتا ہے۔ اگرچہ ماہرین کی اکثریت اسے شہابیہ ہی مانتی ہے لیکن بعض ماہرین اسے دمدار ستارے اور شہابیے کے کی کوئی شے قتار د
3200 یہ لاتعداد ذرّات اپنی زبردست رفتار اور زمینی رگڑ سے بھڑک اُٹھتے ہیں اور تاریک رات میں کی ایک لکیر دکھائی ۔دیتی اس عمل کو شہابی بارش کہا جاتا ہے.بڑے شہروں میں کی وجہ سے آسمان ” ضیائی آلودگی ” (لائٹ پلیوشن) کا شکار ہوجاتا ہے اور اسی بنا دراز اور تاریک مقام بوچھاڑ کا نظارہ کرتی ہے.
روسی اکیڈمی آف سائنس کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ًدس ٹن وزنی شہابِ ثاقب زمین پر گرنے سے پہلے ہی ٹھوٹ گیا وٹ گیا اطلاعات کے مطابق اس شہاب ثاقب کا بڑا حصہ چیلیابنسک سے ایک دور واقع ایک جھیل میں گرا تھا.چیلیابنسک کا علاقہ کے مشرق میں پندرہ سو کلومیٹر دور وہاں متعدد فیکٹریاں, ایک جوہری پلانٹ اور جوہری مواد کو ناکارہ بنانے اور اسے ذخیرہ کرنے کا ایک مرکز بھی واقع ہے۔
اس واقعے کے نتیجے میں ناسا اور عالمی سائنس نے تاریخ میں پہلی بارچار برس ایک چھچھوٹے اسے یارچے کے ز 2013 کو روسی شہر چیلیا بنسک پر سیارچے کے ٹکرا کر کے نتیجے میں حاصل کیے اعداد و شمار سائنس کے کے ضمن میں ایک ا۔نقلا ہیںر ایک ا۔نقتا ر
چیلیابنسک کے واقعے کا شہریوں کے کیمروں کے ساتھ دیگر ذرائع سے بھی اچھی طرح مشاہدہ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے محققین کو یہ نادر موقع ملا وہ اس واقعے کی جانچ پڑتال کر نے ساتھ زمین کے قریب اشیاء کے مضمرات اور زمین کو نو ممالک کے سائنس دانوں نے مستقبل میں سیاروں کے ٹکرانے کے اثرات کے نمونے کے لئے ایک نیا معیار قائم کیاہے ۔
ناسا کے محققین نے مطالعے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پڑنے والی دراڑوں کی کثرت نے اس چٹان کے بالااکی چٹان کے بالاائی کاء میں م م چیلیابنسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے فراہم کیے گئے کا جھٹکوں سے پڑنے والی دراڑوں ماخذ اور ان کے طبعی جاننے کے لیے تجزیہ کہنا تھا سے پیدا ہونے والےجھٹکوں 4.Four ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا ہو. اس تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ سب نظام شمسی کے قیام کے 115 ملین سال کے بعد ہوا ہوگا ، جب شہابِ ثاقبوں کا ایک بہت توصا
جینسکنز کا کہنا ہے کہ اتنے پرانےزمانے میں ہونے نے چیلیابنسک پر شہاب ثاقب کے میں ٹوٹنے کے طریقے پر ڈالا, جس سے نقصان والی لہریں مطابق زمین کی قریبی سمجھنے کے لئے تحقیق کی جا رہی ہے. یہ ناگزیر مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ زمین کے ساتھ ممکنہ طور پر تصادم کی راہ گامزن کسی چیز کا ریاسا د ہ ی ل ہ ک ب
واضح رہے کہ ناسا نے کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ نظام شمسی کے ماخذ ، پانی کے ذرایع ، حاتی کہ مام ااتی کہ مام کیںااتی کہ مام اا مم اا ن مےم جاتی سن مے سرد
ڈائنوسارز سمیت زمین کی 75 فیصد انواع کا خاتمہ کر یہ خلائی پتھر ایک نئی تحقیق کے مطابق جل زلجگہن سے وا ل لجگہن سے ٹکوا ن ل سن س، سر ع. سے ٹکرانے زاویہ بھی سب سے ہلاکت خیز تھا۔ کمپیوٹر سمیولیشن اور اس گڑھے کی جگہ پر کی گئی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹکرانے یہ پتھر یمین کی طح ے سے 60 ڈگہپوا قص ب یپو قص ب
خلیجِ میکسیکو میں جن چٹانوں سے یہ پتھر ٹکرایا۔ ان میں معدنی جپسم کی وجہ سے سلفر یا گندھک کی بڑی مقدار موجود تھی۔ جب یہ مواد فضا میں اوپر تک بلند ہوا اور آبی بخارات ساتھ ملا تو اس نے ‘عالمی جاڑے کو جنمم یاڑے یو جنمم دا۔ان کو جوا پع ن کو جوا پع ہر برس مائیکرو میٹر سے لے کر بڑی سائز کی چٹانوں تک ایسے تقریباً 15 ہزار ٹن پتھر زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں شہابِ ثاقب گرنے کے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں ، مگر دیگر ممالک میں انھیں باقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا رہےارڈ کیا جات اوپن مارکیٹ یا جیمز اینڈ منرل شوز میں ان کی خرید و فروخت عام ہے اور عموماً تحقیقی مقاصد کے لخئ یماہرین نھیںد سر