شمیم حنفی کی رحلت: سوگوار ہے جہانِ اُردو

رحمٰن عباس

6 مئی 2021 کو شمیم ​​حنفی کی رحلت کی خبر جہان ِاردو پر بجلی بن کر گری ، ہر طرف سوگواری کا عالم بپا ہو۔ ایک عالم ، اسکالر ، ڈرامہ نویس ، تنقید نگار اور شاعر سے ایک شگفتہ مزاج ، سکینجیدہ ، م منکسر اد دکھ کی اس گھڑی میں جہانِ اردو کا ہر فرد اپنے اپنے طو ر پر انھیں خراج پیش کر نے لگا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے

گزشتہ نصف صدی گواہ ہے کس طرح شمیم ​​حنفی اردو تنقید کی تاریخ اپنی علمیت سے اس مقام پر پہنچم گئے ۔ا جہاں نب ان ا نب ان ان کی کتابوں میں ‘جدیدیت کی فلسفیانہ اساس’, ‘نئی شعری روایت ادب’, ‘کہانی کے پانچ رنگ’, ‘ادیب اورمعاشرتی تشدد’, ‘غزل کا نیا منظر نامہ’, ‘تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجربہ’, ‘اقبال کا حرف تمنا ‘,’ رات, شہر اور زندگی ‘,’ بازار شیشہ گری ‘,’ اردو کا تہذیبی تناظر اور معاصر تہذیبی صورت حال ‘,’ منٹو حقیقت سے افسانے تک ‘,’ میراجی اور ان کا نگار خانہ ‘,’ فراق دیار ِ شب کا مسافر ‘،’ غالب کی تخلیقی حسیت ‘،’ انفرادی شعور اور اجتماعی زندگی ‘اور’ قاری سے مکالمہ لا تیم شمیم حنفی صاحب نے ڈارمے بھی لکھے ہیں اور شاعری بھی کی ہے ، بچوں کے لیے بھی اور سیاسی و سماجی اککھابرین پر بہے ل

ہمارے لیے ان کی شناخت ایک ایسے نقاد کی تھی وارث علوی, شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند کے عہدمیں اپنی انفرادی بنانے میں نہ تھا بلکہ اور والوں کے دلوں میں ایک الگ جگہ بناتی ہے. جدیدیت کے فلسفے پر ان کی گہری نظر تھی اور ادب کا ایک خاص تصور ان کے ذہن میں تفہیم و تشکیل ان کی زندگی کن صن ا ع ع یہ خوش نصیبی تھی کہ ان کے ساتھ کئی کئی بار ان کے ساتھ ادبی حال پر گفتگو کرنے کا ملا اور متعدد بار ہیںون پتر کے

خود کو حق بجانب گرداننے کی بیماری میں مبتلا نہیں تھے۔ وہیں ان کی تنقید اور آرا پر کی جانے والی تنقید سے برانگیختہ نہیں ہوتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ تنقید کا سفر اسی طرح ہے جو انھیں درست لگا انھوں نے لکھا دوسرے درسیےا ۔مجھد ے ن ، بیا مجھد ن ، بیا ان کا یہ رویہ ان کی شخصیت کی خوبصورتی میں کرتا ہے کیونکہ عموماً یہ دیکھا گیا کہ تنقید لکھنے والا اپہن جااا الا اہن یداا بک ا ب مر شمیم حنفی نرگسیت اور خود پرستش جیسی کمزوری کا تھے جس کا ایک سبب ان اندر موجاود شاعر ، ڈ ہ

شمیم حنفی اپنے علم, مطالعے اور تنقید ی مضامین میں بہتا تھے, یہ پانی کہیں گدلا ہوا, کہیں جامد نہیں ہوا ,, ندی کی طرح ان کے افکار کا بہاؤ جاری ان کے خیالات میں نئی ​​کونپلیں آئیں, وہ زندگی اور ادب کے باہمی رشتے پر متواتر فکر مند رہے۔ ثقافت ، تہذیب ، ادبی روایت ، آدمی اور جبلت ان کے فکر کے محور تھے جس میں فنون اور ا۔بی جماکلیاات کے مےتحثر ار

ہندی ، انگریزی اور بھارت کی دوسری کے کا رہا ، وہ یہ محسوس کر کی ادبی فضا ادب کی اویہ نہیں ہے جا او ہیے جا اسے اپدب کو دس اپب کو دس یہاں چند برسوں میں انھوں ادب کے سماجی رول اور سماج و معاشرے کی صورت حال کے میں انعکاس کی اہمیات پر بھی زو پر بھی زو

کرشن چندر ، پریم چندر اور منٹو کی فن کاری کا جہاں اعتراف کیا محض جدیدیت کو ادب تصموقی کر ن د ضد کنور تر ر ان کی گفتگو سے جو تاثر ابھرا وہ یہ تھا کہ ادب ایک سرگرمی ہے چ نانچہ ادب کو آدمی کے مکھائل ل تااجیحاات ان تور سن تور آخری برسوں میں بھارت میں ہندوتوا کی نفرت پر مبنی سیاست سے مایوس اور چاہتے تھے ادیبوں ککو اس کے زن بو دکو اس کے پن ات در

جہاں وہ سنجیدہ فکر نقاد تھے وہیں حساس دل انسان تھے اور ان اسی خوبی کے سبب آج جہان اردو سوگوار ہے ، ہم وٹ دل



About admin

Check Also

ادب، قومی طرزِ احساس اور جشنِ الماسی

ہم آج جس دنیا اور جس زمانے میں جی رہے ہیں، اُن دونوں کی صورتِ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *