شادی بیاہ کے گیتوں سے سجی پاکستانی فلمیں

شادی بیاہ کے گیت ہر زمانے میں فلمی کہانیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں اور انہیں ہر خاص عام میں پسندیدگی بھی حاصل رہی۔ بالخصوص خواتین ان گیتوں کو پسند کرتی رہی ہیں اور ازبر کر کے شادی بیاہ کی تقریبات میں قا زیاااا مھم کاگابڑے ھ م د د د د تاپ ہاگبڑے شن تار عرد اگر شادی بیاہ کے موضوع سے جڑے فلمی گیتوں کی پر ڈالی جائے, تو ہمیں سب سے ایسا گیت سیف الدین یادگار پنجابی تخلیق ” کرتار سنگھ ” 1958 ء کا ملتا ہے, جس نے اپنی صورت شاعری, دل کش گائیکی اور میٹھی کمپوزیشن کے سبب موسیقی کے شائقین کی سماعتوں کو مسخر کیا۔ یہ گیت تھا ” دیساں دا راجا میرے بابل دا پیارا … امڑی دے دل سہارا … نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا ” وارث لدھیانوی کے اس امر گیت دھن سلیم اقبال مرتب کی تھی اور اسے نسیم بیگم اور سکھیوں نے اپنے سریلے آہنگ سجایا تھا.

گزشتہ 63 برسوں سے اس گیت کا سحر آج تک قائم ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں خواتین کا جو گیت ” رَت جگا ” ہوا کرتا تھا۔ اس میں اس گیت کو ڈھولک کی تھاپ اور تالیوں کے شور میں گانا اُن تقاریب میں لازمی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ بارات کے ساتھ چلنے والا بینڈ بھی۔ اسی گیت کی دُھن کو اپنی کیو شیٹ میں سرفہرست رکھتا تھا۔ یہ گیت دولہا بننے والے بھائی کے لیے ایک بہن کے خُوب صورت جذبوں اور ارمانوں کا غماز تھا۔ ہدایت کار ایس ایم یوسف کی خوب صورت سوشل فلم ” سہیلی ” 1960 ء کا حصہ بننے والا شادی بیاہ کا گیت ” مکھڑے پہ سہرا ڈالے … آجائو آنے والے … چاند سی بنو میری تیرے حوالے. فیاض ہاشمی کی عمدہ شاعری ، اے حمید کی عمدہ کمپوزیشن نسیم بیگم اور ساتھیوں کی آواز سے سجے اس ” ششد ن ن ر بگیوھی ل

شادی بیاہ کی تقریبات میں اس گیت کا آہنگ نمایاں ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں شعراء حضرات دلہن کے لیے (بنّو) کا لفظ بکثرت استعمال کیا کرتے تھے۔ عام زندگی میں بھی ” دلہن ” کی سکھی سہلیاں اسے نہایت پیار سے ” بنو ” کہہ کر بلاتی تھیں, لیکن پچھلی دو تین میں یہ لفظ فلمی اور عام زندگی کی گفتگو سے یوں ” محو ” ہوا کہ متروک اور فراموش کردہ لفظ بن کر رہ گیا۔ بنّو کے علاوہ بنڑی کا لفظ بھی دلہن کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا۔ اب وہ بھی ناپید ہے۔

بالکل اسی طرح دولہا کو بنّا اور بنّڑا لکھا اور کہا جاتا تھا۔ مگر اب یہ دونوں اصطلاحیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ انقلابی ہدایت کار خلیل قیصر کی سوشل گھریلو فلم ” حویلی ” کے لیے ایک شادی گیت رقم کیا تھا, جس کے بول تھے ” جاکے سسرال گوری میکے کی لاج رکھنا”جس کی پراثر دھن موسیقار اعظم خواجہ خورشید نے مرتب کی تھی اور اُسے گایا تھا ، ملکہ ترنم نورجہاں نے ، نہایت خوب صورتی سے دُلہن بجننے کو اس گیت کی یہ نصیحت کی میں جا

گیت کے پیرہن میں یہ نہایت مؤثر ابلاغ تھا۔ ہدایت کار شیخ حسن کی تخلیق ” جاگ اٹھا انسان ” 1966 ء کے لیے دکھی پریم نگری کا تحریر کردہ بیاہ کا دل کش گیت ” آنکھوں میں کاجل, ہاتھوں میں مہندی, مہندی پہ رنگ ہے شباب کا … چھپا گھونگھٹ میں مکھڑا گلاب سا ” جسے عشرت جہاں اور ساتھیوں نے گایا تھا۔ شادی بیاہ کے گیتوں میں ایک خُوب صورت اضافہ ثابت ہوا۔ عوامی سطح پر بھی اس گیت کو خوب پذیرائی اور مقبولیت ملی۔ اس گیت کو کراچی فلم انڈسٹری کی مایا ناز موسیقار جوڑی (لال محمد ، بلند اقبال) نے محور کن دُھن کی ماالا من دُھن کی مااتر م

1967 ء کی ریلیز فلم ” چٹان ” کا ایک شادی بیاہ گیت ” گوری کرکے ہار سینگھار ہو جا چلنے کو تیار … سجن تجھے لینے آئے … بلم تجھے لینے آئے ” یہ گیت مالا, نذیر بیگم اور سکھیوں گایا تھا اور. کی دھن میلوڈی کنگ موسیقار رشید عطرے نے تیار کی تھی۔ اس کے شاعر تھے قتیل شفائی, اور رنگیلا کی بہ طور ڈائریکٹر اولین تخلیق ” دیا اور طوفان ” میں دلہن کی رخصتی کے پس منظر ہاشمی کا تحریر کردہ گیت ” اپنے پرائے چھوڑ چلے ہم … سکھیوں سے منہ موڑ چلے … لےکرسہارا … تیرے پیار کا ” مالا بیگم اور سکھیوں کی پرسوز گائیکی سے سجا کمال احمد کی دل کش دھن پر م۔بنی گیت اپود مقبح میں ع اپود وقت میں ع اپود وقت میں ع

پنجابی سینما کی یادگار فلم ” ماں پُتر 1970 ء میں۔ نوبیاہتا بھابھی کی سسرال آمد پر نند کے جذبوں کا ترجمان گیت ” نی ساڑھے گھر آئی پرجائی ” جسے میڈیا نورجہا نےت ن تنویر نقوی کے خُوب صورت بولوں پر موسیقار جی اے چشتی نے یہ شادی گیت مرتب کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کا پاپولر گیت تھا۔

1970 ء کی ریلیز کراچی کی پروڈکشن ” جُھک گیا آسمان ” کا (سہرا گیت) جسے صہبا اختر نے دل کی روشنائی سے تحریر کیا۔ موسیقار دیبو نے اپنی تمام تر مہارتوں کو بروئے کار اس کی لازوال دھن تخلیق کی اور رونا لیلی نے کے ہمراہ اس ” سہرے ” کو اس کمال فن سے گایا کہ یہ ” سہرا ” امر گیت سنگیت کا ماسٹر ٹھہرا. اس کے بول تھے“اند کی سیج پہ۔ تاروں سے سجا کے سہرا پیار لایا ہے … پیار لایا ہے, بہاروں میں بسا کے ”, ” جھک گیا آسمان ” ایک ڈیڈ فلاپ فلم تھی, لیکن اس ” سہرے ” کی بدولت اکثر تحریروں اور فلمی تذکروں میں یاد کی جاتی ہے۔

ہدایت کار اسلم ڈار کی اولین پنجابی تخلیق ” بشیرا ” 1972 ء۔ یُوں تو یہ متعدد حوالوں سے ایک یادگار معیاری فلم کی حیثیت سے کی جاتی ہے ، لیکن اس کا خاص حواا ا اص حواا بنورانی بڑی دلگیر وے ، کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویروے ” جس خوب صورتی سے مشیر کاظمی نے یہ گیت تخلیق کیا۔ 0 49 سالوں سے یہ گیت مقبولیت کے بام عروج پر ہے۔

ہدایت کار ایس ٹی زیدی اور فلم ساز محمد قوی کی خُوب ‘مسافر کا تخلیق کردہ شادی گیاےت’ کے ، و ا ‘ویگم ےوچم ئےوچم ئےوچم ڑےےوچم ڑےےوم ڑےوا م وئم ڑےوا م وئم ڑےوا م بنتئو گیگیا ب کمال احمد نے اس گیت کو موسیقی کا پیرھن دیا۔

یہ گیت شادی بیاہ کے گیتوں میں خاص اہمیت کا حامل گیت ہے۔ 1973 ء کی ریلیز ہدایت کار علی سفیان آفاقی کی شاہ کار تخلیق فلم ” آس ” کے لیے میڈم نورجہاں کا گایا نثار بزمی دھن پر مرتب کردہ گیت ‘دکھائو سر جھکانا پڑے گا بن ہمارے گھر آنا پڑے’ ‘یہ خوب صورت گیت آج بھی شادی بیاہ کی تقریبات میں سنائی دیتا ہے۔

علاوہ ازیں مسعود پرویز کی ” جھومر ” اقبال اختر کی دوسری قمر زیدی کی ” نصیب اپنا اپنا ” اور ” پالکی ” شباب کیرانوی کی ” انسان اور فرشتہ ” ایس اے حافظ کی ” راجا جانی ” ایس سلیمان کی ” زینت ” فرید احمد کی ” زیب النساء ” ایس سلیمان کی ” تیرے بنا کیا جینا ” شمس چوہدری کی ” نصیبوں والی ” میں بھی نہایت خوب صورت شاعری کمپوزیشن اور دل کش گائیکی سے سجے شادی بیوہ کے یادگار اور رسیلے گیت شامل کیے گئے۔

تاہم ریوائیول آف سینما کی لہر کے تحت بنائی جانے والی بھی شادی بیاہ کے گیتوں ائیر شامل کیا گیا کاوا۔ ” ا گیا ، الکہن کہ س بر سر ع ب ا الیکن کہ س برس لہٰذا آج کل کی فلموں کے شادی بیاہ گیت اور دیگر طرح جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ” کی تفسیر بن جاتے ہیں۔



About admin

Check Also

کرکٹر اور فن کار

شہرت ایک خطرناک چیز کا نام ہے، اگر کسی انسان کے سَر پر شہرت کا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *