سیاسی قیادت سمیت پوری قوم کو یکجا ہونا ہوگا

پاکستان میں کرونا کے اعدادو شمار حوالے کا نہیں ہے ابھی بھی سیاسی سے لے کر تک اس وابستگی اس. , جب حقیقت کو نہیں پا لیں گے وقت کو حوالے سے بری بلا سے نمٹنے ہوگی بحثیت قوم اپنی اپنی نئی نسل محفوظ ہمارا فرض ہے جو کی شکل میں آبادی کا 60 فیصد ہے کا قوم ہمیں فخر کہ بیشتر قوموں کے مقابلے میں میں ہے بات پر شاکی ہیں کہ لگنے والے میلے کارکنوں کو کے ہل. لیے.

پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس وہ میں ناکام ہے جس کے لئے اس کا میں لایا گیا تھا سے لئے بھی نہیں سیاسی جماعت نے کے لیے سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش نہیں کی چاروں صوبوں, آزاد کشمیر اور میں فوج کر ہے نافذ نہیں کی گئی یوں تو فوج طلب کرنا سویلین کی ناکامی ہے مگر فوج پہلی بار طلب نہیں گئی اس سے پہااپہ بھی اورر قداوتی آفک بور قداوتی آفک ت نکا م بال مقاب

دہشت گردی کے خلاف فوج اور کے ہزاروں دی ہیں ، کراچی میں امن و سلسلے میں رینجرز اہم کردار رین ۔درزد پولیس مدوکی پولیس مدوکی پولیس مدوکی بھارت سے لگنے والے 1750 کلو میٹر طویل باڈر پر فوج کے ساتھ رینجرز موجود ہے جو پولیس کی مدد کرتے ہیں۔

ویکسینیشن کے اثرات کے حوالے سے پارلیمنٹ نے ابھی تک کردار ادا نہیں کیا ہمارے یہاں یاوں بھی کا فقدان ہے۔ا ن س میں.

پارلیمنٹ کی صحت کمیٹی کا کوئی نہیں کمیٹی آئی کمیٹی کا اجلاس بلا میں لیا جاتا پارلیمنٹرین سے سیاسی کارکنوں. لئے جاتا کہ وہ اپنے گلی محلوں میں لوگوں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں۔ جس گھر میں ایک سے زیادہ مریض ہوں ان کی مدد کیسے کرنی ان کے گھر میں نان نفقہ کی ذمہ داری کس کے سر پر ہے۔ سول اداروں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں تو آرمی کو کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی آمد بعیقید ۔یال الام بعد تاقد ن ارہی کہ د پیز جارکہ ع د یقی جارہی کہ

فوج کی آمد کے بعد پہلے دن ہی ماسک نہ لگانے والے نوجوانوں کے ایک گروپ کو کان پکڑے مرغا بنتے دیکھا گیا۔ ماسک نہ پہننے پر سزا کا عملی مظاہرہ نہ ہوا تو نوجوان ایس او پیز پرعمل درآمد بھی نہیں کریں گے۔ سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکومت بہت غلطیاں کر چکی ہے مگر پی ڈی ایم اس بھروقت فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ مریم نے بلاول کے خلاف ہاتھ کھڑے کردیے سیاسی محاذ پر سینٹ عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ سینٹ کمیٹیوں کا قیام متنازعہ ہو کر رہ گیا ہے۔

دو اپوزیشن لیڈر میدان میں کھڑے ہیں۔ پارلیمنٹ کی عمارت ڈس انفیکشن کرنےکے لیے پانچ روز کے لیے بند کی گئی تھی مگر بینک ، پوسٹ اور سیکیورٹی آفس کھلے رہے۔ سیانوں کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے تیار نہیں وہ ا اسے ایک ناکام حکومت ثابت کرنے میں مرت کرنے میں میںر

ڈھائی سالہ کارکردگی پر وزیر اعظم نے فخر کا اظہار کیا ہے مگر عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سینیٹرز اے اور متحرک کر کے کرونا کے کرنے میں کامیاب ہو تھی مگر حکومت پارلیمنٹیرینز نے کرونا سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کھڑی اپنا دورانیہ مکمل کرنے تک کھڑی رہے اس کی کارگردگی زیر نہیں گی اسے گھر بھیجنے کے خواہاں سیاستدانوں خواہش پوری نہیں

جہانگیر ترین کی ناراضگی کے باوجود کچھ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ن لیگ کسی ناراض گروپ کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی اس لئے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔حکومت حامی اب سوال کرتے ہیں کہا کون س ڈی کہا کون س پی ڈی ایم کچھ نہیں کر سکتا اس کے حصے بخرے ہو چکے ہیں۔ اپوزیشن کی طرح حکومت کو بھی عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔ حکومت اپنی کرنیوں سے تو گر سکتی ہے مگر کوئی اس کو نہیں گرا سکتا.اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی آپشن نہیں.پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمن نے 29 اپریل کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلوا لیا ہے.

کیا پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے؟ آج ہونے والے اس اجلاس میں پی ڈی ایم کی سیاسی اوقات سامنے آجائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی رہائی کے حلقے توقع کر رہے ہیں کہ سیاسی دھاڑ میں کمی آئے اور کے خلاف جلسے جلوسوں اور مظاہروں کا بند ہو جائے کورونا پر قابو پانے کے لیے بھی شہباز شریف نے لوگوں کو گھر رہنے کی تلقین کی ہے۔

کرونا پر قابو پا لینے کے بعد بھی امکان ہے کہ حکومت عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے گا ایلخ ۔باا ا الگز۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پہلے جیسی رہے گی ان ہٹانے کے لیے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورتت ، نہیں یہ خود کیںب خود ہییںب خود ہیکب خود یںب ود اب تو انہیں لانے والے بھی شرمندہ شرمندہ لگتے ہیں۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے مری میں یونیورسٹی قائم کر کے ایک اچھا اقدام اٹھایا انھیں وزیراعظم ہاؤس اور گورنر بھی یونیورسٹیاں قائم کرنے کے اقدامات اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے. صوبوں میں وزراء اعلی ہاؤسز میں بھی یونیورسٹیاں بن جائیں تو کیا اعلیٰ شان ہوگی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کی خواہش کے مطابق ن لیگ سے ش الگ نہیں ہو سکی۔ شہباز شریف جیل سے سیدھے مریم نواز شریف کے پاس گئے اور نواز کو اپنا قائد تسلیم کائد ہوئے انیہد ساتھ لن کر العد لےن کر چلع



About admin

Check Also

ملک احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں بعض امور پر جزوی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *