ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
” محرّم الحرام”اسلامی سالِ نوکا وہ متبرک اور مقدّس ہے ، جسے پروردگارِ عالم نے حُرمت ہےاظا ‘ے’ ممِت ہےاعظمت رمت ،اعظمت رمت ،اعظمت رمت ،اعظمت رمت ااع مت رمت ا اظ مت اور م ” یہ اُن چار اسلامی مہینوں میں سے ایک ہے ، جنہیں خداوندِقدوس ” اشہُرِ حُرم ” اور اکی۔ن کے مہینے قر اا م اب اہب مود کر اپبت رد کر اپبت رد یہ اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ اور سن ہجری کا آغاز ہے.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اسلامی سال کا آغاز ” محرم الحرام ” سے ہوتا ہے, جو اپنے دامن میں و حزن اور رنج و الم داستانیں سموئے ہوئے ہے, چناںچہ یکم محرم الحرام مراد رسول, امیر المومنین سیدنا عمر فاروق یوم شہادت ہے, جب کہ عاشورۂ محرم نواسۂ جگر گوشۂ علی و سیدنا حسین ابن شہدائے کربلا وہ داستان لیے ہوئے ہے, جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا. یہ جرأت و شجاعت ، تسلیم و رضا اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے کا وہ پیام ہے ، جس اہمیت کبھی کم نہ ہوگی۔ جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تقویم سن ہجری کا نقطۂ آغاز واقعۂ ہجرت ہے, جو رسول اکرم صحابۂ کرام کی زندگیوں مکہ کے ظلم و جبر, استبداد اور کرب عبارت یہ وہ انقلابی موڑ ہے, جب ظلم و جبر کی انتہا ہوئی اور پہلے مظلوم مسلمانوں اور آخرکار امام الانبیاء ، سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ہجرت کا حکم ملا۔ ہجرتِ مدینہ اسلامی تاریخ میں وہ منفرد اور تاریخ ساز واقعہ ہے ، جسے زمانے نے لوحِ تاریخ پر ثبت کردیا ہے یہ تاریخِ انسانی کا اہم ترین واقعہ ہے۔
ایسا تاریخ ساز اور عہد آفریں موڑ ہے, جس نے کی انقلاب انگیز تحریک اور دین پیغام رشد و ہدایت کو سطح پر عام کرنے کی تبلیغ و اشاعت میں ہمہ گیر اور ادا حقیقت یہ ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو انسان کفر و شرک ظلم و جہالت کے اندھیروں ، غلامی کی اذیتوں اور استحصالی قوتوںکی زنجیروں سے نجات حاصل نہ کرپاتا۔ ” ہجرت مدینہ ” ہی وہ انقلابی موڑ ہے, جس نے اسلام پیغام امن و محبت اور رشد کو عام کرنے اور کو عالم گیر اور دین کے مرکزی کردار ادا کیا, ہجرت ہی کی بدولت انسانیت کو عزت و وقار, تکریم و مساوات اور اعلیٰ اَخلاقی قدریں نصیب ہوئیں۔ تاریخ اس حقیقت پرگواہ ہے کہ ” ہجرت ” انقلابی تحریکوں کا مقدر ہے۔ چناںچہ ہجرت کی تاریخ مذاہب کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے ، اس لیے کہ قریب قریب پیغمبرؑ اور رپڑیولؑ کا اپنی جنتو سر دنیا میں ہجرت کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ روایت کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے یثرب کی ہجرت کا حکم پاتے ہی سرکار اپنے ہمدم و جاں نثار, و مزار, سیدنا صدیق کاشانے پر پہنچے اور انہیں بھی ہجرت سے آگاہ صدیق اکبر جن کی قسمت میں اس یادگار اور تاریخ سفر ہجرت مدینہ میں سیّدالانبیاء و المرسلینﷺ کا رفیق یارِ غار بن کر زندۂ لکھا تھا ، شام ہی سے دیدہ و فو ا تکیے ہ چناں چہ ایک سنِ ہجری مطابق 622 عیسوی کو ایک اُونٹنی پر پیغمبرِ اعظم و آخرؐ اوِر داوسری پر سیّدنا ہجو یقِ ر سیّور سر ورور سر سروتر سر اس طرح وہ جو اپنے صِدق کے باعث ” صدیقِ اکبرؓ ” تھا ، اسے رفاقتِ غار کی بدولت یارِ غاکیولت حاص غاکیو جا د ند تہواع
مکۂ مکرمہ سے نکلتے ہوئے محبوب رب العالمین, سید المرسلینﷺ بڑے درد بھرے دل سے رب ذوالجلال بارگاہ اقدس ان سے دامن دعا پھیلایا: ” تمام تعریفیں اللہ کے کے لیے کیا, جب کہ میں کوئی شے نہ تھا, اے اللہ, دنیا کی ہولناکیوں ، زمانے کی تباہ کاریوں اور شب و روز کے مصائب کرنے میں میری مدد فرما۔ اے اللہ, میرے سفر میں تو میرا ساتھی ہو, و عیال میں تو میرا قائم مقام اور جو رزق تو مجھے دیا ہے, اس لیے برکت نیاز کی توفیق عطا فرما اور بہترین اخلاق پر میری تربیت فرما, اے میرے پروردگار, مجھے اپنا محبوب بنالے ، اور مجھے لوگوں حوالے نہ فرما ، تیری رضا میرے نزدیک ہر چیز سے بہتر ہے۔ میرے پاس کوئی طاقت ، کوئی قدرت نہیں بجز تیرے۔ ” (ابنِ کثیر / السّیرۃ النّبویہ 2/234)
eight ربیع الاول سن ایک ہجری کو مدینۂ منورہ میل دور آپ قبا میں وارد ہوئے, اشتیاق دید کا عالم تھا کہ مدینہ ایک نظر دیدار کے ٹوٹے پڑے تھے, ان کی خوشی اور انتہا نہ شوق دید اور سرور دل کا یہ نظارہ چشم فلک نے شاید ہی پھرکبھی دیکھا ہو۔
یہ پروردگار عالم کا منشا اور حکمت ہے کہ ہجرت کی تاریخ اور اسلامی تقویم کے سال کا نیا مہینہ ” محرم الحرام ” باہم اس طرح منطبق ہوگئے کہ پیام, ہجرت نبوی بن کر رہ گئی ہے.ہجرت کے اس تاریخ ساز واقعے سے اسلامی تاریخ کے ایک اور عہد آفریں دور کا آغاز ہوا, جو ہر لحاظ فتح وکامرانی کا دور قرار دیا جاسکتا سیرت نبوی کا یہ حصہ اتنا پر آلام, مصائب سے عبارت ہے کہ اس سے سحر کی امید نہیں بندھتی, خداوند قدوس کی کرم ہجرت ہی اساسی ہے ، جس کی گیر و اشاعت کا وہ عظیم اور لافانی سلسلہ شروع ہُوا ، جو آج تک جاری ہےا اور اِن شاء تاقی مِ ترم تاقی م قیرم
تاریخی روایات کے مطابق ظہور اسلام سے قبل دنیا اقوام میں مختلف سن رائج تھے, میں زیادہ شہرت یہودی, رومی ایرانی سنین کو حاصل کہ عرب کی زندگی اس و کے کسی وسیع پیمانے پر ضرورت پیش آتی.کیوںکہ ان کے ہاں یادداشت اور حافظے کو بنیادی دخل تھا۔ چناںچہ ان کے ہاں یہ طریقہ رائج تھا کہ مختلف و واقعات ، موسم وغیرہ یا ملک کا مشہور واقعہ ے ے یّ دورِ جاہلیت کے سِنین میں”واقعۂ عام الفیل ” کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ طویل عرصے تک یہی واقعہ عرب کے حساب و کتاب میں بطور ” سن ” مستعمل و مروّج رہا۔ جب کہ ظہور اسلام کے بعد یہ اہمیت تاریخ اسلام مختلف واقعات نے لے لی, صحابۂ یہ معمول تھا کہ عہد کے مختلف واقعات میں ایک اہم واقعہ لے لیتے اور اسی کا تعین مثلا ہجرت مدینہ کے بعد ” سورۃ الحج ” کی آیت قتال نازل ہوئی, جس میں قتال کی اجازت دی تھی, کچھ دنوں تک یہی واقعہ بطور رائج رہا, وہ اسے ” سن اذن ” سے تعبیرکرتے اور یہ تعبیر وقت کے ایک خاص عدد کی طرح یادداشت میں کام دیتی. اسی طرح ” سورۂ برأۃ ” کے نزول کے بعد سن برأت بھی جب کہ عہد نبوی کا آخری سن ” سنۃ الوداع ” تھا, یعنی رسول اکرم ﷺ کا آخری حج, جسے اسلامی تاریخ میں ” حجۃ الوداع ” کے نام سے خاص شہرت حاصل ہے۔
اسلامی تاریخ میں سن ہجری کے آغاز و اجراء حوالے سے روایات ملتی ہیں, تاہم مورخین کا امر پر اتفاق ہے کہ ” سن ہجری ” کا باقاعدہ اجراء اور نفاذ دور فاروقی میں جمعرات 17 ہجری کو عمل میں آیا. , اس طرح سن اسلامی تقویم کی بنیاد پایا سیدنا علی مرتضی کے مشورے سے اسلامی تقویم کا شمار ہجرت مدینہ سے کیا گیا, جب کہ حضرت عثمان غنی کے الحرام سے”محرم الحرام ” کو نئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا. (بحوالہ: قاضی محمد سلیمان منصور پوری / رحمۃ للّعالمینؐ 392/2)
اس کا مختصر تاریخی پس منظر کچھ یُوں ہے کہ ایک عمر ؓ کے عہدِ خلافت میں اُن کے دسھتاویز پیش کی گئی ، ، ج ر شعبان ھا د ر شعپان تکا یہ دیکھتے ہُوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا: شعبان سے کون سا شعبان مراد ہے؟ اس برس کا یا آئندہ سال کا؟ پھر آپ نے کبارِِ صحابہؓ کو جمع کیا اور مشاورت لیے ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا ریاست کے م الی ا۔ڑھوا ال ا۔ڑھوی و ال تضر سع ن الی تضات اس پر بعض صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ اس سلسلے میں ایرانیوں مشورہ کرنا چاہیے کہ اُن کے یہاں اس حوالےا سے کیا طریقے ر چناںچہ حضرت عمر ؓ نے ہرمزان کو بلایا ، اس نے کہا ، اس لیے ہمارے ہاں ایک حساب مروّج ہے ، جسے کہا اہ ت ” اسی ” ماہ روز ” کو عربی میں مورّخہ بنالیا گیا ، بعدازاں یہ سوال ہُوا کہ اسلاامی تقویم اوکر یلااا سیدنا علی مرتضی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سب یہی رائے دی کہ سن ہجری, نئے اسلامی آغاز, واقعۂ ہجرت نبوی سے کیا چناںچہ اس کے بعد سے”سن ہجری ” کا نفاذ عمل میں آیا.