معروف ہدایت کار رضا میر اور سائونڈ ریکارڈسٹ سید افضل حسین شاد کی فلم ” لاکھوں میں ایک ” کے نام سے بنائی, جس صرف یابی حاصل کی, بلکہ یہ فلم ہر دور میں بے حد پسند کی گئی. اپنی مسحور کن موسیقی, سدا بہار نغمات, فن کاروں کی بھلا دینے والی اداکاری ہدایت کارانہ معیار, اسکرپٹ کی کشی اور منظر نگاری, دل بندی نے اس فلم کو پاکستانی سینما کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا.
کراچی کے سابق سینما ریوالی پر یہ فلم 28 ؍جولائی 1967 کو ریلیز ہوئی ، جب کہ لاہور کے اوڈین سینما پر ئش و م 19 ؍ مئی 67 یہ فلم 19 ؍ مئی 67 ن م 19 ؍ مئی 67 پُورے پاکستان میں اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ یونائیٹڈ ورکرز کے بینر تلے بننے والی اس فلم میں اداکارہ شمیم آراء کردار نگاری ، ا مر ک ع ا
ہندو لڑکی ” شکنتلہ ” کے کردار میں وہ جس محبت کی علمبردار نظر وہ نہ تو کسی مذہذہ اور نہ ہی ب اپنی قابل فخر محبت کے لیے وہ اپنی جان کی بازی لگا دیتی اور پھر مرتے مرتے اس جذبے کو
شمیم آراء اس فلم میں اپنی کردار نگاری کے حوالے سے واقعی ” لاکھوں میں ایک ” نظر آئیں۔ فلم میں ہیرو کا کردار اداکار اعجاز نے کیا, ٹرک ڈرائیور کا تھا, جب اس کا اعلانکیا گیا تو اس میں وحید مرادکا نام کے لیے لیکن جب کردار کے تو رضا میر اور افضل صاحب نے اعجاز کا نام فائنل کیا. اس کردار میں اعجاز نے اپنی فطری اداکاری سے خود کو اس کردار کااہل ثابت کیا۔
انہوں نے دلدار خان ٹرک ڈرائیور کے کردار میں حقیقی رنگ بھرا ، جو میں اپنے والد سے بچھڑ کر اپےن ۔ااد ر اپےن ۔اد ر اپن ۔اد ر اپن ۔اد ر اپن ۔اد ر اپول اد شن بھول اداکار ساقی نے دلبرخان ٹرک ڈرائیور کا کردار بہ خوبی نبھایا۔ جسے ایک بچہ ملتا ہے ، وہ اسے اپنا بیٹا بنا لیتا ہے۔ یہ بچہ بڑا ہو کر دلدار خان (اعجاز) بنتا ہے۔
آغا طالش نے اس فلم میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کردار احمد دین نامی ایک ایسے شخص کا تھا ، جس اپنے قول کو نبھانے کی خاطر کی قربای جاوق دی نے ہو ل دڑکی دی نے ہو ل وہ ہندو لڑکی اس راسخ العقیدہ مسلمان کے سائے تلے کر کر ہوئی ، لیکن وہ پھر بھی ” شکنتلہ ” رہی۔ مصطفیٰ قریشی کی بہ طور اداکار یہ دوسری فلم تھی ، ان کی فلم سندھی زبان کی پردیسی تھی ، جو 1958 میں ریلیزا ‘ون ی’ ‘لاوکھ اس فلم میں وہ اپنے منفی کردار میں بے حد پسند کیے گئے۔
یہ ایک جنگلات کے افسر مدھو سدھن لال کا تھا۔ جس کا پس منظر بھارت سے تھا۔ یہ کہانی کے چند اہم کردار تھے۔ دیگر اداکاروں میں پنڈت شاہد نے شمیم آراء کے باپ ہردیال بابو کا کردار ادا کیا۔ ذورین نے اس فلم میں ایک بے وقوف نجومی کا کردار کیا ، جو فلم کی ہیروئن سے شادی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ مایہ ناز گلوکار احمد رشدی نے اس فلم پولیس انسپکٹر کا مختصر کردار جب کہ ان کے ابڑے بھائی اکااا بھائی اکاا ۔م اہاا ۔م ااد کم رسلان ن اس فلرد اپنے دور کی معروف رقاصہ ” چھم چھم ” نے بہ طور مہمان ایک گانے میں اپنا رقص پیش کیا جس کے بول تھے۔
” پیار نہ ہو جب دل میں تو جینا ہے ادھورا
مانے یا نہ مانے غفوراً غفوراً
یہ دل کش خوب صورت گانا چھم چھم اور ساقی پر فلم بند ہوا تھا۔ کچھ مسلم اور ہندو کرداروں پہ مبنی اس فلم کی کہانی کا مختصر یہ ہے کہ حاصل کرنے کے لیے ہندوست پھیلگئیا ندوست ن تحر چلی ت، ن تحریک چلی ت، ن تحریک چلی ت، ن تحریک چلی ت، اس آگ کے شعلوں کی تپش اور تباہ کاریاں ان علاقوں کو بھی نہ بچا سکی ، جہاں امن تھا۔ کہانی کا آغاز آزاد کشمیر کی جنت نظیر وادی میں رہنے والے دوستوں سے ہوتا ہے۔ احمد دین (طالش) اور ہر دیال (پنڈت شاہد) جو ملک تقسیم ہونے کی وجہ سے جدا ہو رہے تھے۔ فسادات کے پیش نظر ہردیال نے اپنی بیٹی شکنتلہ کی پرورش احمد دین کو سونپی کے حالات پر امن ہوجائیںا تن و۔د ، تن سسے
احمد دین کی بیوی اور گھر ہندو بلوائیوں نےجلا دیا اس کا بیٹا محمود کسی طرح آزاد کشمیر کے باڈر پر حالت میں ایک پٹھان ٹرک ڈرائیور دلبر خان کر صدمہ برداشت کر لیتا ہے بیوی اور بچے شہید ہو گئے. شکنتلہ جوان ہو کر ٹرک ڈرائیور دلدار خان (اعجاز) کو چاہنے لگتی ہے ، پھر ایک داااس جا باپ پیااااس کا باپ ہار دی ن ن تات لس
شکنتلہ سرحد کے پار مقبوضہ کشمیر میں ہندو معاشرے کر جب آباد ہوتی ہے, تو طرح کی باتیں اور کرنے لگتے ہیں, جنگلات افسر ہیں شکنتلہ کی محبت اور جدائی میں اپنے پتا کی لاج کی مدھو سدھن لال جسے سنگدل اور ظالم شخص کو کرنے پر مجبور ہو جاتی اس کا جسم اور روح دلدار خان محبت میں گرفتار ہوتی ہے۔
ایک روز جب شکنتلہ کی یاد میں دلدار خان اس سے ملنے سرحد پار آتا ہے ، تو مدھوسدھن اس پر گولی چل ےدیتا ا دتا شکنتلہ اپنی محبت بچانے کے لیے خود گولی کا شکار ہو جاتی ہے۔ دلدار ، شکنتلہ کا انتقام مدھوسدھن لال کو قتل کر کے لے لیتا ہے۔ شکنتلہ کا جسد خاکی اٹھاکر پاکستان کے باڈر میں داخل جاتا ہے ، مگر باڈر پر لگی لوہے کی ہے ارب پر پار شکن لو رکی کار شکنت لہ رکی کار شکن لہ رکی پ.
فلم کے ہدایت کار رضا میر نے یُوں تو ہر فریم موجودگی کا بھر پور احساس اوھر تاثر قائم کے کااجا ائم کے خااجا یائم کے خ کی شکنتلہ کا جسم اگر حالات کے تحت ہندوستان شفٹ ہو ہے, مگر اس کی روح ہمیشہ پاکستان میں ہے اور مرتے وقت کی ساڑھی کا لہراتے ہوئے رخ پاکستان ایک پر امن اور محبت کرنے والا ملک ہے. لاکھوں میں ایک سے متاثر ہو کر بھارتی اداکار ، ہدایت کار فلم ساز آنجہانی راج کپور نے فلم حِنا بنائی۔
اس فلم کی تکمیل سے پہلے راج کپور آنجہانی ہوگئے۔ فلم ” حنا ” کی کہانی مکمل کرنے کے لیے راج کپور نے کئی بار فلم ” لاکھوں میں ایک ” کا ویڈیو پرنٹ دیکھا۔ رشی کپور اور ان کے کیمرہ مین پاکستان آئے تو ان کی سید افضل حسین شاہ سے کرائی اور انہیں بتایا ےا اکہ ” لتایا گیا اکہ ” لتنب مل تو رشی کپور نے انہیں سیلوٹ پیش کیا۔ فلم ” حنا ” میں زیبا بختیار نے ہیروئن کا کردار کیا تھا۔
فلم کی موسیقی کی بات کی جائے تو موسیقار نثار بزمی نےاس فلم کی موسیقی میں جو مرہب کیں ، وہ فلمی ماوا کا ایکت شا او فلم کے تمام نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اس سلسلےمیں تنویر نقوی ، مسرور انور ، اور فیاض ہاشمی کا نام قابل ذکر ہے۔ جنہوں نے اس قدر اعلیٰ معیار کے نغمات لکھے۔ ان نغمات کو ملکۂ ترتم نور جہاں ، مہدی حسن ، مجیب عالم اور احمد رشدی نے اپنی آوازوں بے حدیا مترنم بنن فلم کے نغمات کی تفصیل کچھ یُوں ہے
(1) حالات بدل نہیں سکتے۔
(2) ساتھی کہاں جو آواز تو دوں۔
(3) چلو اچھا ہوا تم بھول گئے۔
(4) بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا
(5) دل دیا درد لیا آنکھ میں آنسو آئے
(6) اومن ساجنا دکھی من کی پکار۔
ان نغمات کے علاوہ موسیقار نثار بزمی نے اس کہانی کے پس منظر میں ایک کی دھن بھی کے بول شاعر فیاض نے لکھے اور نور جہاں اور ہم میں ریکارڈ کروایا, میں یہ شمیم آرا اور ایکسٹرا ایکسٹریس پرفلم بند کیا گیا. یہ ایک مندر میں پُوجا کے وقت فلمایا گیا ، جس میں کوریوگرافی کے فرائض ماسٹر صدیق نے انجام دیے۔ اس بھجن کے بول یہ تھے۔ ” من مندر کے دیوتا لاکھوں لاج ہماری ”۔ اس بھجن کو سننےکے بعد بھارتی موسیقار نثار بزمی کےفن کے معترف ہو گئے۔
رضا میر کی ڈائریکشن ، کامران مرزا کی فوٹو گرافی ، ضیاء سرحدی کااسکرپٹ ، ایڈیٹر علی اور یگمر پاااا م م م م م م م م م م م لم ا۔م للوم لم م آپم م م م م ن گویا اس فلم میں ہر فن کار اپنے کام میں لاکھوں میں ایک ثابت ہوا۔