جُرم ، جِرم ، جرائم اوراَ جرام

عربی میں ایک لفظ ہے جِرم ، اس میں جیم کے نیچے زیر ہے اور رے ساکن ہے۔ اس کے معنی ہیں جسم ، تن ، بدن۔ اس کی جمع اَجرام (الف پر زبر) آتی ہے۔ اردو میں واحد یعنی جرم تو کم ہی استعمال ہوتا ہے کی جمع اجرام مرکبات میں آتی ہے اور ” اجرام فلکی ” کی ترکیب آسمانی اجسام مثلا چاند, سورج یا سیارے کے مفہوم میں مستعمل ہے. جِسم کی جمع اَجسام کی طرح جِرم کی جمع اَجرام بھی دراصل ” اَفعال ” کے وزن پر ہے۔

بعض لوگ جرم کو جرم پڑھ لیتے ہیں کیونکہ اعراب لکھنے رواج بالعموم نہیں ہے اور کا لفظ اردو میں ہوتا ہے .لیکن معنی تو .اردو میں جرم کی جمع جرائم سمجھی جاتی ہے اور اب اردو کی حد تک یہ درست مانی جاتی ہے. اردو میں جرائم پیشہ کی ترکیب بھی رائج ہے۔ لیکن عربی میں ” جرائم ” جمع ہے ” جریمہ ” کی.بالکل اسی طرح جس طرح جریدہ کی جمع جرائد جزیرہ کی جمع جزائر ہے اور یہ ” فعائل ” کے وزن پر ہیں جو عربی میں جمع مکسر کے اوزان میں سے ہے۔ مصباح اللغات کے مطابق جُرم کی جمع عربی میں جُرُم اور جُرُوم ہے۔

جرِیمہ (یاے معروف سے) کا لفظ خطا اور قصور کے معنی میں آتا ہے اوراسی سے جریمانہ ہے۔ جس طرح جُرم سے جُرمانہ ہے اسی طرح جریمانہ کا لفظ بھی ‘سزا عائد ؍وصول کی گئی رقم جرمانہ ، ت

جرم اور اس کی جمع اجرام کے سلسلے میں ایک چسپ بحث یہ ہے کہ بعض علم کے نزدیک جرم صرف ” علوی ” اجسام کے لیے آسکتا ہے اورصرف سیاروں, چاند اور سورج کو, جو درحقیقت ” اجسام فلکی ” ہیں ‘ ‘اجرام’ ‘کہنا چاہیے کیونکہ یہ’ ‘علوی’ ‘ہیں .لیکن جو اجسام مادی یا عنصری یا ہیں, مثلا مٹی, اجرام نہیں بلکہ اجسام کہنا کے,’ ‘سفلی’ ‘ہیں جبکہ چاند سورج وغیرہ’ ‘اجرام علوی’ ‘ہیں۔ ” عُلوی ” یعنی اونچا ، بلند ، آسمانی ، فلکی ، اونچے درجے کا ، اعلیٰ۔ عُلوی کی ضد ” سِفلی ” ہے ، سِفلی یعنی ادنیٰ ، نچلے درجے کا ، پست۔

لیکن امیر مینائی نے لکھا ہے کہ جِرم اور جِسم کے معنی میں فرق نہیں ہے اور دونوں تن یا بدن کے مفہوم میں ہیں۔ فارسی شاعری میں ــ”جِرم ِ خاک ” کی ترکیب بھی آئی ہے۔ البتہ یہ ہے کہ اَجرام سِفلی کے لیے زیادہ تر اَجسام اور اَجسامِ ِ عُلوی کے لیے اکثر کا لفظ آتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسے کوئی قاعدہ یا کلیہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک عمومی رجحان ہے۔

اسٹین گاس نے بھی اَجرام ِ چرخ ، اَجرام ِ سما اور اَجرام ِ فلک کے ِ عنصری کی ترکیب بھی درج کی ہے۔ گویا اَجرام (جو جِرم کی جمع ہے) فلکی اور ارضی دونوں قسم کے اَجسام کے لیے آسکتا ہے۔

٭زَبان یا زُبان؟

زَبا ن (زے پر زبر کے ساتھ) اور زُبان (زے پر پیش کے ساتھ) دونوں درست ہیں اور ان کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ آج کل بعض لوگوں نے بغیر کسی دلیل یا کے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ زبان اگر جیبھ یا کے ہے زے کے ساتھ زبان ہے نیز یہ کہ گفتگو, نطق یا بول چال کے ہے تو زے پر زبر کے ساتھ زبان ہے.

لیکن یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اردو اور کی مستند لغات سے یہ ظاہر کہ پہلے حرف (یعنی زے) پر زبر اور پیش دونوں ساتھ اس لفظ تلفظ کرنا درست ہے اور دونوں معنی کی خود ساختہ تخصیص (جیبھ اور کلام) کا کوئی جواز موجود نہیں۔



About admin

Check Also

چند مشہور اشعار اور اُن کا تاریخی پس منظر

احمد وقار اس ہفتے ہم آپ کو چند اشعار اور ان کے دلچسپ تاریخی پس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *