فلم اسٹار زیبا کے پیکر حُسن کو فلمی شاعروں نے شامِ کشمیر سے دی ، تو کبھی ان کے سراپا کو فل۔می غاب و فلمی نغمہ نگار کے
” ٹکڑا وہ چاند کا رخ زیبا کہیں جسے
دیکھا ہے اس کو حسن سراپا کہیں جسے ”
ایک موقع پر حمایت علی شاعر نے زیبا بیگم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔
” مانا کہ حضور آپ ہزاروں میں حسین ہیں ”
کسی ادیب نے اُن کے حُسن کے بارے میں لکھا زیبا اگر فرانس میں جنم لیتیں تو پامپا ڈور کی ‘ا’ ک ” ” ” ” ” اویٰ بن ست لع برصغیر پاک ہند کی فلمی ہیروئنز کے سراپا کے حُسن کی بات کی جائے تو ان میں بیگم کا نام سر فہرست ہوگا۔ ان کی تمام ہم عصر ہیروئنز جو آج حیات ہیں ، ان کے مد مقابل زیبا کا چہرہ اور سراپا آج گریس فل ہے۔
اس سدا بہار حسن کو کشمیر کی شاداب اور دلفریب خُوب صورت اور پنجاب کے لہلہاتے اسر سےبز بغغ ات بَل س ب ت ت ت بَل س ت ت ت زیبا کے والد اعظم خان کا تعلق کشمیر سے تھا اور ان کی والدہ لالی مشرقی پنجاب کے شہر انبالھیں ہ نے ولی تھیں ہ کشمیر اور پنجاب سے تعلق بھی چوں کہ حُسن کی تعریف ہے۔
13 اکتوبر 1943 کو پیدا ہونے والی شاہین نے 1962 میں ” زیبا ” کے نام سے اپنے فلمی کیریئر کا آغےاز فلما ‘اچر س لتا ر اداکاری کاشوق ان کو فلموں کی طرف لے آیا۔ ابتدائی زمانے میں ان کی فیملی سٹی کورٹ کراچی کے قریب رہائش پذیر تھی۔ اس کے بعد یہ لوگ کراچی کے علاقے ناظم آباد شفٹ ہو گئے۔ فلم ساز و ہدایت کار فضل کریم فضلی نے انہیں بار ناظم آباد والے مکان میں دیکھا اور ” ” ‘کا نام د یںم ان ر من اداکار محمدعلی کی بھی ” چراغ جلتا رہا ” پہلی فلم تھی۔
فلم ” چراغ جلتا رہا ” کے ساتھ زیبا کی دو نامکمل فلمیں ” شام اودھ ” اور ” زندگی ” بھی بن رہی تھیں۔ یہ تینوں فلموں 1961 میں شروع ہوئیں ، صرف چراغ چلتا رہا ، مکمل ہو کر 1962 عیدالفطر کے بعد کرئیاچی کے نشاط سیوما مل
زیبا نے جس دور میں فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا ، تو اس وقت شمیم آرا ، حُسنہ اور نیلو کا دور تھا۔ شمیم آرا ان کی سب سے مضبوط حریف ثابت ہوئیں۔ زیبا نے بہت جلد اپنی دل کشی, حسن و رعنائی, کے ذریعے ہر طرح کے کرداروں بہترین کردار نگاری سے اپنا مقام کر صف اول ہیروئن میں اپنا نام شامل ” چراغ جلتا رہا ” کے موقع پر ملاقات ایک لازوال محبت کے قالب میں ڈھل گئی ، علی زیب کی محبت نہ تو افسانوی ہے اور نہ ہی لوک داستانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ نہ ہی کوئی ان دیکھی کہانی ہے۔اس محبت بھری داستان لوگوں نہ صرف کئی فلموں میں اپنی سے دیکھا ، مکہلکہ ان د س بوحب ان دیکھی س بسھی ت
سینما کے پردے پر فلم کی صورت میں گاتی مسکراتی اس محبت کو حقیق رنگ میں دیکھنے آنکھوں اور سن۔نے اوالے ُن سن ن ابال کن سن ن دُنیا کی حسین و جمیل فلمی اور حقیقی جوڑی علی زیب کی محبت زندہ جاوید محبت اور رشتے کی جہم شامل ہے ہے زیبا اگر محبت کا پھول ہے, تو علی اس کی خوش اور خوش بو کی جوڑی فلم ” تم ملے پیار ملا ” کی شوٹنگ کے دوران حقیقی میاں بیوی کے طور پر سامنے ان دونوں کا چراغ پہلی فلم سے اس طرح جلا کہ پھر ایک عرصے تک وہ فلمی صنعت کو جگمگاتا رہا۔
زیبا بیگم نے فلمی دنیا میں دیگر ہیروز کے مدمقابل بھی کردار کیے, درپن کے ساتھ جب سے ہے تمہیں, باجی, بالم, کمال مدمقابل دل نے تجھے مان لیا, توبہ, آشیانہ, بھی ہوتا ہے, جوکر, درد دل, سہاگن میں پسند کی گئیں۔ جنگجو ہیرو سدھیر کے ساتھ باغی سپاہی ، جوش ، کوہ نور ، مفرور میں وہ ہیروئن آئیں۔ محمد علی سے قبل وہ سدھیر کی بیوی بھی بہت جلد طلاق ہو گئی ، جن زیبا اداکارہ کے پر نہیں ہوئی صاف شاہین تو کر
زیبا وہ واحد کام یاب ہیروئن ہیں ، جو ایک بچی کی ماں ہونے کے باوجود بھی کام یاب رہیں۔ جب ان کی پہلی فلم ” چراغ جلتا رہا ” ریلیز ہوئیں تو اس وقت ثمینہ کی عمر بہت کم تھی ، ثمینہ ان کی اواد ہے۔ محمدعلی نے ثمینہ کو ہمیشہ اپنی سگی اولاد سے بھی زیادہ چاہا اور ایک باپ ہونے کے اس کے تمام حقوق پورے کیے۔
پاکستان کے سب سے مشہور رومانی چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے ساتھ کی جوڑی ہیرا اور پتھر, عید مبارک, جاگ اٹھا انسان, احسان, باپ رشتہ پیار کا نامی پسند کی وحید مراد کے ساتھ سپر ہٹ کام یاب فلم ارمان کو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ فلم 1966 میں نمائش پذیر ہوئی۔ لیجنڈ اداکار ندیم کے ساتھ زیبا نے فلم دامن ، اور چنگاری اور پالکی میں ہیروئن کے روپ جلوہ گر ہوئیں۔
زیبا بیگم کی اب تک ریلیز فلموں کی تعداد 93 ہے ، جن میں 59 فلموں میں انہوں نے محمئد علی کی قروئن ہےا۔ا روئن یک رد ر کیےر، تو اپنے پورے کیریئر میں زیبا نے نہ صرف ایک پنجابی فلم ” مہندی والے ہتھ ” میں ہیروئن کا کردار کیا, جس کے ہدایت ایس سلیمان تھے اور یہ فلم 1963 میں کراچی کے پلازہ سینما میں ریلیز ہوئی تھی.
1974 میں زیبا اور محمد علی کو جرمن کے اشتراک سے بننے ونچر فلم ” ٹائیگر گینگ ” کو لیڈنگ رولز کے مواقع ملے۔ ایک بھارتی فلم ” کلرک ” میں بھی زیبا اور محمد علی کے کام کیا۔
زیبا کی فلموں میں ان کی کردار نگاری کےحوالے ہونے والی فلم”رواج ” وہ پہلی فلم تھی ، ج جس میں ڑکیلااا ک س میں ڑکیلداا یں رضیہ کا یہ کردار ان کے فلمی کیریئر میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ، جو اپنے اور جواری شوہر اسلم پرو کک لم س
یہ علی زیب کی بطور ہیرو ہیروئن پہلی فلم تھی۔ حمایت علی شاعر کی گھریلو فلم ” لوری ” میں ان کا کردار اپنی سہیلی کو دیئے ہوئے قول کا نبھانے والی ایک ایسی کا تھا, کے مرنے کے اس اپنی محبت کی قربانی دے اس کی ماں بن جاتی ہے. ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم ” ‘آشیانہ’ ‘کے بعد فلم’ ‘بہو رانی’ ‘میں ان کے کردار کی مثال نہیں ملتی۔
ایک غریب گھر کی بیٹی ہونے پر اسے فخر تھا اور اپنی ذہانت سے وہ کس طرح خاندان کی عزت اور وقار کو بچاتی ہے۔۔ فلم ” ارمان ” کی یتیم لڑکی کے کردار میں بڑی اعلیٰ معیار کی نگاری سے اپنی فنی صلاحیااایا ا ا 1970 میں شباب کیرانوی کی اسلامی گھریلو معاشرتی سپر ہٹ فلم ” انسان اور آدمی ” زیبا کا کردار نہ صرف پیچیدہ تھا, بلکہ در تہہ نرم و ناک انسانی جذبات آنسوئوں سے چھلکتا ہوا تھا. یہ اس انسانیت کی علامت ہے ، جو خاک بسر ہونے کے باوجود اپنی عظمت سے آگاہ ہوتا ہے۔ اس فلم میں یہ کردار ان کی فنی زندگی کا سب سے بڑا اہم تھا ، اپنے محبوب رضیہ کو ” بدنامی اچدا رسو ن اس جہاں اس کے نغمے سننے والے تو بہت تھے ، لیکن اس کی آواز اور پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔ وہ رو رو کر کہنے لگی:
” وہ آنچل ہو جس کی ہوا بک گئی ہے
وہ نغمہ ہو جس کی صدا بک گئی ہے
تڑپتا سسکتا ہوا اک دل ہو
جسے نہ سننے کوئی وہ التجا ہو
زمانے کی نظروں میں میں بے وفا ہوں ”۔ اس فلم میں زیبا کی کردار نگاری اس کی فنی عظمتوں کی گواہی دیتی ہے۔ یہ پہلی فلم تھی ، جس میں وہ ینگ ٹو اولڈ رول میں جلوہ گر ہوئی تھیں۔ زیبا اپنے اس کردار میں ایک ایسی مظلوم عورت کےروپ میں نظر آئیں ، جو معصوم ہے ، زمانے قربان گاہد پر بھینٹ چڑھا ہےر بھینٹ چڑھا ہےر بھینٹ چڑھا ر بھینٹ چڑھا پ انہوں نے اپنے اس المیہ کردار کو بڑی عمدگی اورفطری انداز میں ادا کیا۔ خاص طور پر چہرےکے تاثرات کے اظہار میں جس قدر مہارت کا ثبوت دیا ، وہ ان فن کی بھر پور صلاحیتات کی غمزی کر
اسی طرح فلم ” انصاف اور قانون ” میں امیر زادی سفینہ کا کردار بھی ان کے فلمی کرداروں میں اضا خوب صصورت انسان اور آدمی کے بعد ایک مرتبہ پھر وہ اس فلم میں فن کی بلندیوں پر نظر آئیں۔ فلم ” افسانہ زندگی کا ” جس کی کہانی میں انسانی احساسات اور جذبات کی عکس بندی کی گئی تھی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کردار بعد تک کہہ دیا کہ زیبا کا سب سے اس فلم فرض شناس. رضیہ.
محمد علی نے نفسیاتی مریض کا یاد گار کردار ادا کیا تھا۔ زیبا ڈاکٹر کی حیثیت میں ان کی معالج بن کر آتی ہے۔ اور پھر اسے ایک نئی زندگی سے ہمکنار کرتی ہے۔ رضیہ بٹ کے ناول ” تمنا ” کو جب ہدایت کار ایس سلیمان نے فلم ” محبت ” کو نئے انداز سے فل ۔ا ‘ا’ ن ن زیبرت رود اور اس کردار کو انہوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے یاد گار بنا دیا۔
زیبا نے کبھی بھی زیادہ فلموں کا لالچ یا فلمیں حاصل کرنے کے وہ طریقے نہیں اپنائے ، جس سے انسانی وقار کپہو نقصا
29 ستمبر 1966 کو زیبا ، محمد علی کے نکاح میں آگئیں۔ اداکار آزاد جو ان دنوں اسٹیرن اسٹوڈیو کے قریب رہا کرتے تھے ، ان کے گھر میں یہ نکاح ہوا۔ دُلہن زیبا کی طرف سے آزاد صاحب کے سرپرستی کے انجام دیے ، جب کہ محمد علی کے ارشاد علی پم بھاا سر ست ست سع اس نکاح کے سارے انتظامات آزاد کے بھائی امین قریشی نے نبھالے۔
آزاد کی بیٹیوں نے زیبا کو دلہن بنایا, جب علی کو آزاد کی دونوں بیویوں دولہا کا روپ دیا, آزاد ایک عزیز عتیق عالم, بھائی ارشاد اور کے صاحب گواہ وکیل ذمے داریاں نبھائیں. نماز ظہر کے بعد تین بجے یہ نکاح ہوا۔ جب زیبا ، محمد علی کے سامنے دلہن کے روپ میں آئیں تو ان کے لبوں پر بے اختیار یہ گیت آگیا۔
” گوری کے سر پہ سج کے سہرے کے پھول کہیں گے… تم ملے پیار ملا رہے۔ ”
شادی کے بعد جس طرح ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کی حیثیت سے کام یابی ملی ، اسی طارح فلیںمی دُُنیا میں ہین بر بو ہین تیر جو فلمی تاریخ میں ایک ایسا ریکارڈ ہے جو آج تک کسی فلمی میاں بیوی کو حاصل نہ ہوا.علی کی بیوی بن نے ان کے گھر اور زندگی کو جن فلموں میں صرف محمد علی کام کر رہے تھے, تو زیبا خود ہاتھوں سے کھانا تیار کرکے ان فلموں کے سیٹ پر لے جایا کرتی تھیں۔ دونوں نے مل کر اپنا پروڈکشن آفس بنایا جس کے تحت ” آگ ” اور”جیسے جانتے نہیں ” فلمیں بنائی گئیں۔ ” آگ ” ان کی بے حد سپرہٹ اور یاد گار فلم تھی ، جس نے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔
شادی کے بعد زیبا نے اپنے آپ کو ایک ایکسٹریس سے زیادہ بیوی کے طور پر منوایا۔ ایک موقع پر خود محمد علی نے زیبا کی اس میں کہا ‘اگر میری بیوی نہ ہوتیں تو میں فٹ پاتھ پر ہوتا’ ‘علی زیب اپنے رکھ رکھائو اور ادبی ذوق سیاسی شخصیات میں بھی بے حد مقبول رہے. ہر دور میں حکومتی سطح پر ان کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی۔
جہاں علی زیب کی رہائش تھی ، گلبرگ کی اس سڑک کا نام علی زیب شاہراہ رکھنا خود اس بات کی دلیل ہے۔ ان کا گھر علی زیب ہائوس کا شمار ایک دور میں لاہور کے سب سے بڑے اور خُوب صورت مکان طورپر ہوتا تھا۔ جسے محمد علی کی وفات کے کچھ عرصے بعد زیبا نے فروخت کر کے اپنی رہائش گاہ کہیں اور شفٹ کر لی۔
محمد علی کی وفات کے بعد ایک بار زیبا بیگم نے اپنے کہا تھا کہ علی نے ساری زندگی میری ہاں ملائی, زندگی کے اہم فیصلوں میں مجھے ہرحال میں اپنے نام کے ساتھ میرے نام کو جوڑے رکھا. میں نے انہیں محبوب کے روپ میں ایک بےمثال محبوب پایا ، شوہر کے روپ میں وہ دنیا ایک ایسے شوہڈر کاا ، کنج ت کل وہ ایک بے مثال دوست تھے ، جو اپنے دوستوں کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے۔ وہ ہر ممکن ان کی مدد کے لیے حاضر ہوتے تھے۔
میری زندگی علی کی محبت اور ان کی یادوں سے عبارت ہے۔ ان کی یاد نہ ہو تو شاید دل سانس لینا بھول جائے۔ میں زندہ ہوں ، کھاتی ہوں پیتی ہوں ، لیکن مجھے علی کے بغیر بس یوں محسوس ہوتا ہے جیسے؎
” ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس
کسی کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم ”