اسلامی تاریخ میں مُحرم الحرام کی عظمت و اہمیت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاریخ اور خود زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالی طے کردہ نظام کے سال میں بارہ ہی ہوا کرتے تھے ایسے ہیں کہ اسلام آمد عہد جاہلیت کے عرب کفار مکہ بھی ان کی حرمت اور احترام کے قائل تھے.چناں چہ وہ جاری جنگوں کو بھی ان مہینوں میں موقوف کردیا کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اس کی طرف ” منھا اربعۃ حرم”کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے.ان چار مقدس مہینوں کے اندر الحرام کا مہینہ بھی او رحسن اتفاق اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہی محرم الحرام کہلاتا انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے واقعات کو محفوظ کیا ہے, ان سے چند درج ذیل ہیں: * … اس مہینے میں االلهتعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی. ٭… حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری۔ ٭… حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے رہائی حاصل ہوئی۔ ٭… حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔ ٭… حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ * … حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی تھی کہ االلهتعالی نے فرعون سمیت کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق * … حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان اٹھا لیا گیا وغیرہ وغیرہ.مندرجہ بالا تمام واقعات تعلق دین اسلام کی آمد سے سےہے اور تاریخی بھی یہ بات معلوم ہوتی یہ تمام واقعات محرم الحرام کی مم پیش ھے ع

اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض اہم واقعات محرم کی دسویں تاریخ کو پیش آئے میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: * … حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اسی روز (یعنی دس محرم الحرام کو) اہل مکہ, خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے. (بخاری ومسلم) * … جب کہ اس مہینے کے آغاز میں سیدنا عمر فاروق قاتلانہ حملہ تو 28 ذی الحجہ کو ہوا تھا, لیکن شہادت یکم محرم الحرام کو .* الحرام کی تاریخ وہ ہے جس میں نواسۂ رسول, سیدنا حضرت حسین شہادت کے مرتبے پر فائزہوئے۔ قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔

عاشوراء محرم ، محرم الحرام کی دسویں کا محرم مہینے میں جو تقدیس آئی ہے دن کی وجہ ہے اور بطور شکزہرانہ ا۔ ا رو رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعت اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی ، لیکن عاشورہ دنن اکی تقدیس برقر چناںچہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے ، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے ، اسے ترک کردے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد کے لائی منورہ کے یہودی عاشورہ محرم کا جب ان یہودیوں ان وزے ہمیں فاع لوا فاع ن سہا اع ن سے سہا فاع ن سے سنجا اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔

دین اسلام چونکہ ایک مستقل مذہب ہے اور اس مذہب نے اپنے سے مذاہب کی چند باتوں کو بھی اپنکم ا۔ادر ہموتے سوئے سموتے سوئے سمون سوئے ان کے ماننے والوں کی مخالفت کا حکم دیا ان مذاہب سے یہ مذہب ممیز ممتاز ہوجائے, لہذا حضوراکرمﷺ نے یہ ارشاد فرمائی کہ آئندہ محرم الحرام ساتھ میں نو محرم رہا تو ضرور رکھوں گا. (صحیح مسلم جلد اول صفحہ 359)

چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی فقہائے بتاتے دس محرم الحرام کا روزہ نہ کے ساتھ ایک روزہ بھی رکھے یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھے.نبی اکرم ﷺ نے روزے کے فرمایا فرمایا کا روزہ رکھے, مجھے االلهتعالی کی ذات امید واثق ہے کہ کے پچھلے ایک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ ” (مسلم جلد ۱ صفحہ ۳۶۷)

فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت کہ ان سے مراد اﷲتعالیٰ کی نافرمانیاںہیں ، بڑے وڑے اںہیں ، بڑے بڑے ن ب ب عوح ن ب ب عوود کیم ب م ب وود عم ب م ب افوح جہاں تک االله کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا ہے صاحب حق کے معاف کیے بغیر نہیں ہوتے, بعض روایات اس دن کے یہ بات ملتی ہے کہ ‘شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو ایک سال اس کے رزق فرمائے گا۔ ” (مشکوٰۃ) مندرجہ بالا دو باتیں اس سے اہمیت کی حامل م۔ کہ با او تون رون اور عمل قرون اور عمل قرون اور عمل قرون اور عمل اس مہینے کے حوالے سے تاریخ اسلام کے دو اہم ترین واقعے یہ ہیں: یکم محرم الحرام کو امرالمؤمنیااا ب سیدنا عمر بن خطاب ؓ تاریخ اسلام کی وہ مایہ ناز شخصیت کہ جن کے اسلام قبول کرنے کے لیے اول ارنے کے لیے اور اام کاو پہن م ب م م م م م م م م م م ب

تاریخ اسلام کا دوسرا اہم ترین واقعہ 10 محرم الحرام کوسیدنا حضرت حسین ابن علی ؓ کی شہادت کا ہے۔ یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک (ٹِیس) ہر مومن کے دل میں ہار اُس مق ہااا یںس موق ہے ج یہ تاریخی روایات کے مطابق سیدنا حسین بن علی ؓ four ھ میں شعبان کی 5 تاریخ کو پیدا ہوئے۔ رسول اﷲﷺ نے شہد چٹایا ، اُن کے منہ کو اپنی بابرکت زبان سے تَر فرمایا ، دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔ آپ نے کم و بیش (روایات کے مختلف ہونے کی وجہ سے) حیات نبوی کے کئی سال دیکھے۔ یہ اُن کی صحابیت کی ایک مضبوط دلیل اور علامت ہے۔ آپ کا جسم پاک رسول اﷲﷺ کے جسداطہر کے مشابہ تھا۔ آپ اپنے بھائی کے ساتھ بچپن میں نبیﷺ کے سینہ پر سوار ہوکر کھیلا کرتے اور ان سے محبت اظہار فرماتے ہوئے نبیﷺ نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسین) دنیا میں میرے پھول ہیں (طبرانی فی المعجم) نیز رسول االلهﷺ کا یہ ارشاد. مبارک حدیث کی کتابوں میں جگمگاتا ہوا ہمیں ملتا ہے اور حسنؓ و حُسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

حضرت امیرمعاویہ ؓ کے بعد یزید نے مسند اقتدار سنبھال تھا اور مسلمانوں سے اپنی خلافت کے حق ابا حق خاد اون سن سع ع اد الع سن رن لع حضرت حسین ؓ نے بیعت سے سختی سے انکار فرمایا۔ تاریخی روایات کے مطابق بیعت نہ کرنے والے صحابہؓ سے یزید کے کارندوں نے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ سیدنا حسینؓ یزید کے ظلم سے عوام الناس کو بچانے اوردین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کی طرف آئے تھے۔

سیدنا حسین ان حالات کے اندر کربلا پہنچے, جہاں ان کے روکا گیا اور ان سے یزید کی بیعت حاصل کوشش کی گئی, جسے آپ نے منظور 9 محرم الحرام کو آپ کا پانی بھی بند کردیا گیا اور معرکے میں سیدنا حسین نے احقاق حق خاطر حق وصداقت اور کی بے مثال تاریخ رقم کرکے اپنی جان آفریں کے سپرد فرمادی۔



About admin

Check Also

شہیدِ منبرومحراب سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ

محمد عبدالمتعالی نعمان امیر المومنین, خلیفہ دوم, مراد پیمبر, عشرۂ مبشرہ کے بزم فاروق اعظم, …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *