ادیب اور مصلحت

انسانی زندگی میں مصلحت کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سماجی رشتوں اور اجتماعی معاملات میں بعض مواقع پر ناگزیر ہوجاتا ہے کہ انسان مصلحت سے کام لے۔ یہ تقاضا انفرادی بھی ہوسکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ تاہم یہ طے ہے کہ اس کا مقصد بہرحال مشترک مفاد کو ہر طور پر ممکن بنانا پھر باہمی افتراق و انتشار سے گر

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مصلحت دراصل مثبت رویہ ہے اور اثرات کا دائرہ اجتماعی سطح پر بناتی ہے, اگر بنیاد میں اتحاد و یگانگت کا جذبہ اگر ایسا نہ ہو, بلکہ اس کے برعکس محض انفرادی مطلب براری مقصود تو اس عمل کی اثباتی قدر ختم ہوجاتی ہے اور مصلحت پھر منافقت میں بدل جاتی ہے۔

ادیب بھی انسان ہوتا ہے۔ زندگی کی طرف اُس کا رویہ عام لوگوں سے بے شک مختلف ہوسکتا ہے ، لیکن زندگی ضرورتوں اور حقائق ےے تو ن ہ بوت م اُسے بھی ایک معاشرے میں جینا ہوتا ہے اور رشتے ناتے نبھانے ہوتے ہیں۔ وہ اُن کے تقاضوں کی مکمل طور سے نفی نہیں کرسکتا۔ کیا ادیب بھی مصلحت پسندی سے کام لیتا ہے؟

اگر لیتا ہے تو یہ کام اُس کے کردار اور شخصیت پر کس طور سے اثر انداز ہوتا ہے؟ نتیجتاً اُس کے فن کی سچائی اس عمل سے کس طرح یا کس قدر متاثر ہوتی ہے؟ اِس صورت میں اُس کا بیانیہ یا کام کس حد تک قابلِ اعتبار رہ سکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ آخری سوال ہی وہ مسئلہ ہے جس کی تفتیش مقصود ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک ادیب کی شخصیت ، کردار اور سچائی وغیرہ سب کچھ دراصل اُس کا فن یا بیانیہ ہوتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ جب تک ادیب زندہ رہتا ہے اُس کی شخصیت و کردار کے حوالے قابلِ توجہ رہتے ہیں۔ اُن کو مثال بنایا جاتا ہے یا اُن پر سوال جاتے ہیں ، اور یہ باتیں اُس کے کی قدر و قیمت کے تع اثا مت تع ا د اوال تر ت بھی ایکوال ترت تر

ایسا یوں تو سب ہی معاشروں میں ہوتا ہے ، لیکن ہماری طرح جذباتی اور اعصابی رِدِعال کا کرحے لیالے ۔ا کرحے لیںالے مع تر مہا ر صلالے مع تشر مع اس حد تک کہ اُس کے فن کی تفہیم بھی غیر ضروری طور سے اسی تناظر میں کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسا صرف ادیب و شاعر کے ساتھ ہی نہیں ہوتا ، بلکہ اظہار کی جہت رکھنے ہےوالے ہر ششبے کے افراد کےآوتیے م م

جہاں تک ادیب کی ذاتی اور شخصی زندگی کا معاملہ ہے تو اصولی پر ہمیں اِس سے کچھ زی ادہ سروکار نہیں ہاکا چا و تور ر ادیب اپنی زندگی کو ذاتی پسند و ناپسند کے تحت بسر کرنے کا اسی طرح پورا حق ہے ، جیسے کحقسی بھی دو حسے شخص و ل دو حس شخص کو وہ بہت پارسا ، دین دار ، نیک اور سچا ہوسکتا ہے اور اس کے بالکل برعکس بھی۔

ہاں ، یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اگر اُس کا کوئی عمل زندگی میں کسی کے لیے ضرر ثابت ہوتا ہے تو جواب حدہی بھی وک ر دہی بھی سی ر ادیب اپنی زندگی میں بہت صلح جو ، مصلحت کوش اور ملنسار ہوسکتا ہے اور اس کے برخلاف سخت برخلاف سخت بھی باک اب سن ب سن تنہد دونوں صورتوں میں مضائقہ نہیں۔ اگر وہ کسی کے لیے مسئلہ نہ بن رہا ہو تو اُس کے ذاتی افعال و اعمال پر کوئی سوال نہیں اٹھنا چاہیے۔ البتہ ادیب کے فن یا اس کے تخلیقی و فکری بیانیہ کو اس طرح نہیں دیکھا جائے گا۔ اس کے برعکس ہر ہر قدم پر اُسے اپنے معنی کے سلسلے میں نہایت ذمے دار ہونا چاہیے۔

وہ اپنی ہر بات اور ہر تخلیقی و فنی اظہار کے لیے جواب دہ ہے۔ وہ اپنی معنوی ذمے داری سے کسی حالت اور کسی بھی صورت میں غافل نہیں ہوسکتا اور ہی اُس کے لیے عار خ۔و کر خکوہی کر اس کا سبب یہ ہے کہ اس کا فن ذاتی حوالوں سے نظر کرکے بھی پوری طرح اپنی معنویت کا اظہار کرتا لوگوں کے ذہن و دل پر اثر رویوں کی تشکیل اور کردار سازی میں مؤثر ہوسکتا ہے. ایسا تو کسی سماج میں کبھی نہیں ہوا اور نہ اب ہوسکتا ہے کوئی مضمون ، افسانہ یا ناول یک بہ یک پدا ب سمتج کیل دا ب

تاہم اس امر کی نفی بھی نہیں کی کہ ادیب زیریں سطح پر یا غیر محسوس انداز لوگوں کے دل و ایسا اثر چھوڑتا ہے جو بعد ازاں محرک بھی بن سکتا ان کی زندگی میں ایسی تبدیلی لاسکتا ہے جو ان کے طرز احساس طرز عمل کو نیا رخ دے ، تاہم ایسا جب بھی ہے بہت نرمی اور آہستگی سے ہوتا

رہی بات ادیب کی مصلحت کوشی کی ، تو یہ کہ جینوئن تخلیقی و فنی تجربے کا شکار نہیں ہوتا ہے اس شامل ہی نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا جو کچھ ادیب کے تخلیقی بیانیے میں ظاہر ہوگا ، وہ دراصل اُس کی روح کی پکار اور دل کی آواز کی صورت ہوگا۔ وہ ادیب کے گہرے Condemnation اور وابستگی کو سامنے لائے گا۔ ہم اس کی رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں یا اُس کے خیال کو رد کرسکتے ہیں ، لیکن اُس کی داخلی سچائی سے انکار نتہیں کر

یہی وجہ ہے کہ دنیاے ادب کی تاریخ ایسے واقعات زمانے اور ہر معاشرے میں پیش کرتی آئی اادیب کی ادب کی تخلیقی و فنی صداقت اصل میں صاحبِ حال صوفی کی صداقت کی طرح ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے ناقابلِ عمل ، ناقابلِ قیاس یا ناقابلِ قبول تو ہوسکتی ہے ، لیکن خ۔د کے لیے اذاتی کخد تیر یاتی جقی تکھر یہی وجہ ہے کہ ادیب اس سچائی کو معرضِ بیاں میں لاتے ہوئے کسی مصلحت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے عہد کی طرزِ حیات سے ، سماجی رجحانات سے یہاں تک کہ حکومتی اختیارات سے ٹکرا ہے ، لیکن مصلحت خ تیارت ن یہی ادب کی قوت اور ادیب کا افتخار ہے۔



About admin

Check Also

ادب، قومی طرزِ احساس اور جشنِ الماسی

ہم آج جس دنیا اور جس زمانے میں جی رہے ہیں، اُن دونوں کی صورتِ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *