تعلیم حاصل کرنے کا حق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 26 میں درج ہے۔ اعلامیے میں بلامعاوضہ اور لازمی ابتدائی تعلیم دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 1989 ء میں اپنائے گئے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن میں دنیا بھر کے ممالک سے گیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کو سب نکے لیے کو سب نکے لیے کو سب نکے لیے و سب نکے لیے انسانی حقوق کی فراہمی میں بھی تعلیم اولین ہدف ہے ، جس کے بغیر 2030 ء کے پائیدار ترقیاتی اہداف ککامکما تا ان اہداف کے حصول میں پیشرفت اور تیزی ہر فرد کے لیے معیاری تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
عالمی سطح پر تعلیم میں حائل رکاوٹیں
تعلیم ، بچوں کو غربت سے نکلنے اور کامیاب مستقبل کی جانب بڑھنے کے لیے سیڑھی کا کام کرتی ہے۔ تاہم ، دنیا بھر میں تقریباً 26 کروڑ 50 لاکھ بچے اور نوعمر افراد کو اسکول میں داخالہ لینے یا ا اسے مکمل من 61 کروڑ 70 لاکھ بچے اور نوعمر افراد بنیادی ریاضی پڑھ نہیں سکتے۔ جامع اور مساوی معیاری تعلیم کے بغیر ممالک صنفی مساوات کے حصول اور غربت کے خاتمے کی کوششوں میں کا میالک سنہیں
تعلیم اور تربیت ملازمت کے مواقع اور آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہے۔ یونیسکو کی جانب سے کیے گئے تجزیوں کے مطابق اگر عوام کی پرائمری تک رسائی ممکن ہوجائے تا دنیا سے نصف غربت سکو تعلیم کےسب سے کم مواقع غریب ممالک میں دستیاب ہیں ، جہاں ابتدائی و ثانوی تعلیم کو ادھورا کیا رح سب سے زیا رح سب سے زیا رح سب سے زی ان ممالک کو ہنر مند افراد کی قلت کا سامنا ہے ، جس کے باعث یہ اجتماعی ترقی و خوشحالی ترقی یافتہ مم الک س
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے ‘کا حصول یقینی بنانے زندگی بھر سیکھنے کو فروغ دینے سے ہمیں پائیدار ترقیاتی ہدف نمبر four کو آگے بڑھانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنا چاہیے’ ‘.
پاکستان کی صورتحال
پاکستان میں شعبہ تعلیم سنگین مسائل سے دوچار ہے, یکساں تعلیمی نظام ہونے اور قیام پاکستان سے اب اصلاحات کے لیے ضروری مختص نہ کرنے سے تاحال خاطر خواہ اصلاحات عمل نہیں لائی جاسکیں. قابل اساتذہ کی کم تعداد, علم ہنر لیے ٹیکنالوجی پر جدید تیکنیکس کی عدم موجودگی, معیاری تعلیمی کی زائد فیس, طلبا کی ذہنی جسمانی صلاحیتیں بڑھانے کے سہولیات کا فقدان اور سرکاری اسکولوں کی دگرگوں صورتحال (بالخصوص کچی آبادیوں / یا گاؤں دیہات میں) چند بنیادی مسائل ہیں۔
پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 2.5 فی صد خرچ کرتا ہے ، ، جو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میںسب سے کم ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں شرحِ خواندگی میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر اب بھی یہ 57 فی صد ہے جبکہ معیار تع۔لیم کوئی خرکن بہت ملک کا تعلیمی نظام بنیادی طور پر منقسم ہے, یعنی اسکولوں کی تقسیم, نجی اور سرکاری اسکولوں کے تقسیم, پھر اردو میڈیم انگلش کی تقسیم اور آخر میں لوکل سسٹم برٹش سسٹم کی ایسے میںیکساں تعلیمی نظام کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے. حکومت پاکستان نے رواں سال سے ملک بھر کے تمام اسکولوں میں پرائمری نصاب نپڑھافذ کارنے کا اعلااوانے کا اعلان اوان زا موکی اب دود ا اعلان ن ا بع تیت
کووِڈ -19 سے متاثرہ نسل اور تعلیم
رواں سال کووِڈ -19 وبائی مرض کی وجہ سے عالمی سطح پر غیر معمولی حالات اور تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر اسکولوں, کالجوں, یونیورسٹیوں دیگر تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ساتھ خواندگی اور زندگی بھر کے میں رکاوٹ نے 190 سے زائد ممالک میں ایک ارب 60 کروڑ طلبا کی زندگی کو متاثر کیا ہے.
پاکستان کی بات کریں تو اس عالمی وباء سے پہلے ہی 25 کروڑ بچے اسکول سے باہر تھے اور اب ںمک سے اسکون ونے چ اس کی چند بنیادی وجوہات میں والدین کی اپنے بچوں کو واپس اسکول بھیجنے میں ہچکچاہٹ اور پریشانیوا قو رانیوں کی ب سی فیس ت کی ب سے فیس د کووِڈ19-سے پہلے دنیا کے تقریباً نصف بچے خدشہ ہے کہ ، اسکولوں کی بندش کا دورانیہ بڑھانے سیکھنے وااےاد بچو ک تعد اسکولوں کی بندش کا سب سے زیادہ نقصان پری پرائمری اور پرائمری کے بچوں کا ہوا ہے۔
چھوٹی عمر میں بچے اپنے اساتذہ سے اور گروپ میں کر بہت سی چیزیں سیکھتے ہیں مگر ایک سال ےسے ان ۔لوں شکن الا ل لوشک آن لا ن یلوتز علل لو آن لا ن کلوتہ علان لوت ن لا ن لوت عن لا ن نوت ہیںن لا ن موت ین لا ن لوت ہیںن لا ن لوت عن لا ن موت ہیںن لا ن موت بہت سے والدین نے پری پرائمری کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں کروایا ہے, ایسے میں مستقبل کے سے ان بچوں کو مشکلات درپیش آسکتی تاہم, اب ہمیں بازیافت (restoration) کے مرحلے میں تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے اور مزید جامع ، محفوظ اور پائیدار معاشروں کی طرف رفت کے لیے باہمی تعاون اور بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔