کووڈ 19 (covid -19) کی عالمی وبا کوپوری دنیا میں ہوئے تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے دوران اس وبا کی وجہ بننے و الا وائرس سارز کووڈ 2 ((SARS-CoV-2 کی ابتدا اور ھیئت کے بارے میں سائنسی طور پر کئی مستند, مضبوط اور چونکا دینے والے انکشافات ہوئے. کےساتھ اس وائرس اور کووڈ متعلق کئی غیر مبہم اور سائنسی استدلال ماورا سازشی نظریات بھی ہمارے ذہنوں تلاش کی.کچھ نے اس کسی دانستی یا غیر دانستہ سائنسی حادثے کا نتیجہ قرار دیا یا پھر سراسر انکار ہی کردیا وقت کےساتھ ساتھ یہ ابہامی نظریات اپنی موت آپ مرتے رہے۔
حالیہ دنوں میں اب ان نظریات کی جگہ کچھ نئی سازشی کہانیوں نے لے لی ہے۔ جن میں سرفہرست سارز کووِڈ 2 کے خلاف بننے والی ویکسین سے ہے ، جس کے مطابق اس وائاس کے خ لاف و۔دین د نصل ویکدین در نکل ویکب لیکن بالآخر اس نظریئے ابتدائی پذیرائی بھی وقت کےساتھ ساتھ سائنسی تحقیق اور اس سے حاصل ہونے حقائق کے سا منے ما۔د سا منے ماند
مسلسل کی جانے والی سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات اب مسلمہ حقیقت کے طور پر کہی کہ سارز کووڈ 2 کا وائرس حامل ایک قدری ارتقا کے نتیجے میں وجود میںآیا لہذا اس وائرس پر بھی ارتقا کے ہی اصولوں کاادراک ہوتاہے جو دیگر جانداروں اور وائرس میں ثابت ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سا ل کی وبا کےدوران پوری دنیا سےسارز کووڈ 2 کے وائرس کے لاکھوں نمونے جمع کئے گئے اور دنیا کی تجربہ گاہوںمیںان نمونوں سے ہونےوالے وائرس کاجینیاتی تجزیہ کیا گیا اصطلاح میں genome sequence کہا جاتا ہے اس سے حاصل G ہونےوالی نامی ڈیٹا بیس میں جمع کی گئی ہیں دوسرے لفظوں میں GISAID دراصل سارز کووڈ 2 کی جینیاتی ساخت کا اور میں ہونے والی تبدیلیوں کا گوگل کی سرچ انجن ہے.لاکھوںسارز کووڈ 2 کے جینیاتی مادے کے تقابلی جائزے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ سارز کووڈ 2 وائرس بھی جینیاتی تبدیلیوں سے گزر رہاہے یا دوسرے لفظوں میں اس وائرس میں ارتقائی عمل جاری ہے۔
اسی ارتقائی عمل کے نتیجے میں سارز کووِڈ 2 وائرس کی ڈھائی ہزار سے زائد انواع کی شناخت ہوئی ہے ط ت ت تر سائنسی اصطلاح میں ان انواع کو tribe یا variant کہا جاتا ہے اب یہاں چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آخر اس وائرس کے variant کیوں وجود میں آرہے ہیں ؟۔ دوسرا یہ کہ وائرس کواپنے variant بنانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ۔تیسرا ان variant کا کووِڈ 19 کی وبا پر کیا اثر ہوگا ؟۔ چوتھا یہ کہ سارز کووِڈ 2 کے خلاف بنائی جانے والی ویکسین ان variant کے خلاف موثر ہوگی یا نہیں ؟۔ ان تمام سوالوں کا جواب جانداروں کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں پنہاں ہے۔ لہٰذا ان سوالات کے جوابات کی طرف جانے سے پہلے ہم حیاتیاتی ارتقا کےبارے میں واقف ہوجائیں۔
کرہ ٔارض پر جانداروں کی قریباً ڈھائی کروڑ سے زیادہ انواع موجود ہیں۔ یہ انواع زمین کی تقریباً پانچ ارب سال کی تاریخ میںپائی جانے والی صرف ایک فی صدہے گویا بمقی 99 فی صاد ان مضدد م اد ان اع کررع حیاتیاتی ارتقا کے نظریئے کے مطابق کی محقق ڈارون اور بعدمیںآنے والے کئی سائنسدانوںنے اای جاندا اااا جاندار ےفزاوہےن اندار ےےاوہےن آگےاودم ےردور ےےاو سرو ساوہےن س تا سےاوہےن سروہےم سےاوہےن س تائش سےاوہےن سرد م ےفزاوہےن آگےروفزم ساوہےن س تا سفزاوپن آگےرد م ےےاوہےن آگےوفزم ےجاوہےن آگےروم ککاوہےن آگےروہم سےاوہے نقل بنانے کا یہ عمل مکمل پر بلکہ جابجا کے دوران غلطیاںہوجاتی ہیں جیسے جینیاتی تغیرات جاتا ہے عام طور تغیرات سے نہ کوئی فائدہ ہوتاہے کے باعث یہ تغیرات در ہوتے رہتے ہیں اور کسی حد تک بڑھتے رہتے ہیں.
اس عمل کو نیوٹرل سلیکشن کہا جاتا ہے ۔البتہ کچھ تغیرات ایسے ہوتے ہیںجن کے نتیجے میں کی ان کے ماحوکل سے ما وت تم ےے مطا بقت ختم ےے مطا بقت ختم نتیجتاً ایسے جاندار رفتہ رفتہ معدوم اس کہا جینیاتی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر میں نئی آنے میں کچھ یا پھر. اسی دیگر جانداروں کے مقابلے میں کسی نہ کسی لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں کے باعث وہ ماحول میںموہوزید ا۔ا د دور ج دور کے دیگور ج ن تسل کے دور ج دور کے دور ج دور کے ددور کے دور کے دور کے دور ج دور ج دیور ج دور جدیور یگ دیور ج جدور ج جدور ی جدہور ج دیگور ج جدور ج دور ج جدہور جلد ںد د د د د د د د.
مثلاً ایک ہی والدین کے بچے طور چیتے زندگی حد کو چھو پاتے ہوتے ہیں جوجسامت اپنے بہن میں زیادہ. ہیں یا لمبی چھلانگ لگا سکتے ہیں ، جس کے باعث ان کو اپنی افزائش حاصل کرنے کے اپنے بہن ھ ائیوں پا ن بائیوں ےا ن نل ہوسر ہیں اس عمل کو پازیٹو سلیکشن کہا جاتا ہے جب کہ ان وہ چیتے جو کہ جسامت میں اپن سےزیادہ ملتے جلتے تھے اپنے بھائیوں کے مقابلے میںکمزور رہتے ہیں.عمومی طور نسل آگے نہیں لہذا وہ نیگیٹو سلیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں اب اسی ارتقائی عمل کو رکھتے ہوئے ہم مندرجہ بالا بیان کئے گئے چاروں سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔
سارز کووِڈ 2 کیوں کہ ایک وائرس ہے لہٰذا دیگر وائرسز کی طرح یہ بھی اپنی افزائش نسل کسی دوسرے جاندار میں کرتہے۔ سارز کووِڈ 2 کی صورتحال میں یہ جاندار انسان ہے۔
سارز کووڈ 2 وائرس انسانوں میں داخل ہونے کے بعد اپنی Spike پروٹین کے ذریعے انسانی خلیات پر موجود ACE2 نامی پروٹین جوڑتاہے جوڑنےکے بعد کچھ انسانی پروٹینز مثلا TBRRSS2 اور Furin وغیرہ وائرس کوانسانی خلیات میں داخل کردیتے ہیں جہاں یہ وائرس اپنے جینیاتی مادے ہے یہ جینیاتی مادہ کسی طیارے میں داخل ہونے والے ہائی جیکرز کی طرح جوکہ طیارے کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ خلیئے میں ہونے والے عوامل کا کنٹرول سنبھال لیتاہے ، جس کے نتیجے میں انسانی خلیات بجائے پپپا ایداا ن وا کدو ن ن توارر وائرس کے جینیاتی مادّے کی نقل بنانے کا یہ عمل ایک پروٹین Polymerase کرتی ہے لیکن یہ عمل غلطیوں سے پُرہوتا ہے۔ ان میں سے کئی غلطیاں تو درست کرلی جاتی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ غلطیاں رہ جاتی ہے جنہیں سائنسی اصطلاح میں Mutilation کہہےا جات
کووڈ 19 کی ڈیڑھ سالہ وبا میں سارز کووڈ 2 وائرس پندرہ کروڑ سےزائد انسانوںمیں اپنی افزائش نسل کرچکا ہے اس دوران نے ہر اس انسان میں اپنے جینیاتی مادے نقل تیار کرلی ہے اور اس دوران کئی mutilation وقوع پذیر ہوئی ہے .انہیں mutilation کی بنیاد جائزے کے بعد سارز کووِڈ کی ڈھائی ہزار سےزائد انواع کا پتہ چلا ہے۔
جینیاتی تبدیلیوں کانہ تو فائدہ ہوتا اور نہ ہی نقصان اور کچھ تبدیلیاں دہ اور بہت ہی خصمئوص االی ن د لد ردیلن د لد جنہیں بالترتیب نیوٹرل سلیکشن, نیگیٹوسلیکشن اور پازیٹو سلیکشن کہاجاتا ہے, اسی لحاظ سارز کووڈکی ڈھائی ہزار سے انواع میں سے پیش تر یا نیوٹرل یا نیگیٹو سلیکشن کا شکار کر تقریبا ختم ہوچکی ہیں.
البتہ سارز کووِڈ 2 کے کچھ انواع میں پائی تبدیلیوں نے کچھ اضافی خصوصیات دے دی ہیں ، جس کےکے شدید بیماری کرسکتا ہے یا انساین مدافعاتی نظام سے بچ کے نکل ہے .ان خصوصیات کی بنیاد پر جن 2 کووڈ میں اس طرح تبدیلیاں موجود ہیں.وہ دوسرے سارز کووڈ 2 کووڈ کےمقابلے میں انسانوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں.
مختصراً سارز کووِڈ 2 کے یہ Variants کو پازیٹو سلیکشن کے عمل سے گزرا ہے۔ اب تک اس کی کوئی نوانواع دریافت ہوچکی ہیں جنہیں بنیادی دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں Questionable variants اور variants below investigation کہا below ہے سارز ہے 2 سارز کی برطانوی قسم (B1.1.7) سائوتھ افریقا, قسم (B.1.351) برازیلی قسم (P.1) اور کیلیفورنین قسم (B.1.427 / B.1.429) کا شمار Variants of Vincent میں کیا گیاہے۔ ان میں سے برطانوی قسم سارز کووِڈ سے قسم کے مقابلے میں پچاس فی تیزی سے ہے کہ دیگر میں والی باڈیز صلاحیت. نکلنے کی موجود ہے ان خصوصیات کےباعث سارز کووڈ 2 کی یہ انواع انسانوں میں حملہ آور ہورہی ہیں اور تیزی سے اپنی نسل آگے کر اسی وائرس کی دوسری کم ضرر رساںانواع کو کررہی ہیں.
سارز کووڈ 2 کی برطانوی قسم سب سے پہلے دریافت ہونے و questionable variant ہے, جس کے باعث برطانیہ میں تیزی سے وائرس کے انفیکشن میں اضافہ میں آیا اور حالی میں پاکستان میں سارز کووڈ 2 کے انفیکشن یا وبا کی تیسری لہر دار بھی اسی قسم کو قرار دیا جارہاہے۔ نیویارک میں دریافت ہونے والی قسم CB.1.527 / B.1.529 اور حالیہ دنوں میں بھارت میں پائی جانے والی قسم (B1.617) یا ڈبل ویریٹ کا شمار variants below investigation میں ہوتا ہے, اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ ان Variants کے باعث وبا تیزی سے پھیل رہی ہے یا پھر ماحولیاتی عوامل اےوثہیں یہ ے پھی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارز کووڈ انواع کےخلاف کارآمد یا نہیں اب تک سارز کووڈ 2 کے خلاف دس سے زائد ویکسینز انسانوں استعمال ہورہی ہیں یہ ویکسینز یا تو mRNA یا پھر ایڈینو وائرس یا پھر سارز یا پھر اس کے اجزا سے بنائی گئی ہیں۔ ان ویکسینز کے بارے میں کہا جارہاہے کہ مجموعی طور پر یہ تمام انسانی جسم میں داخل ہاونے کے بیعد ااا ن ٹیو ب ل نike بیو سارز کikeوت لور ٹیفوت سار ٹیزوت ل ل وت ب
لہذا جب کسی ایسے انسان پر سارز کووڈ 2 کا وائرس آور ہوتا ہے جیسے پہلے سے ہی ویکسین لگی ہو تو یہ اینٹی باڈیز حملہ آور وائرس کی spikes پروٹین سے جڑ جاتی ہیں اور ایسے انسانی خلئے کے ACE2 پروٹین سے نہیں جوڑنے کے باعث وائرس انسانی خلیات پر حملہ آور نہیں ہوپاتا اور کے نتیجےمیں وجودمیں آنے والے سارز کووڈ 2 کے questionable variants میں سے برطانوی, جنوبی افریقی, برازیلی اور کیلیفورنین قسم میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیںجن کے نتیجے میں ان کی Spike پروٹین کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں, جس کے باعث ویکسینز پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز, سارز کووڈ 2 کی ان انواع کی tip پروٹین سے کمزوری سے .نتیجتا اگر ویکسین لگے شخص پر سارز کووڈ 2 کی ابتدائی قسم حملہ آور ہوتی ہے توتو ویکسین اپنی افادیت مکمل ظاہر کرسکتی ہے اور وائرس انسان میں میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔البتہ ویکسین شخص میں اگر سارز کووِڈ 2 کی نئی اقسام حملہ ہوکتی تو تو راہم کد د گی یکراہم کد د گی لیکن ت ت د د گی لیکن تحفظ
اس صورتحال میں سب سے پہلے امر بنایا جائے موجودہ ویکسینز کی خ وراک کی جائے ، تاکہ سارزکووِڈ م م بھیود سور نئیت ئیسمم سے سور نئی اختیار کرنی ، تاکہ وائرس کی نئی اقسام حملہ آور نہ ہوپائیں۔ دنیا بھر کے تحقیقاتی اداروں نے وائرس کی نئی اقسام کے خلاف ویکسینز کی تیاری اور تجزیوں کا کام شروع کردیا ہے لہٰذا جب کبھی یہ ویکسینز مہیا ہوجائیں تو ان کی خوراک بھی لے لی جائے۔