” لوری ” کا ذکر تو سب نے سنا ہوگا بلکہ بچپن بھی سب نے سنی ہوگی لیکن بہت کم لوگ ” جاگوریــ ” کے باںن تےو جا سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس نہیں تھا صاحب سے ایک روز ادبی گپ ہورہی تھی تو انھوں کہ اردو میں ایک اور منفرد صنف ‘ہے اور لوری کے برعکس یہ بچوںکو کے لیے گائی جاتی ہے.انھوں نے بتایا کہ مسلم ضیائی صاحب نے میں جاگوریاں لکھی تھیں اوراپنے میں شائع بھی کی تھیں جو وہ ” تارا ” کے نام سے بچوں کے لیے نکالتے تھے۔
لیکن اردو میں جاگوری یاا س طرح کی دیگر منفرد اور دل چسپ اصناف پر تفصیلی تحقیقی کام کم ہوا ہے۔ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ اردو کی کئی منفرد اصناف خواتین کی تخلیق ہیں۔ یہاں کوئی تفصیل دینی تو ممکن ہے یہ مقالہ ہے لیکن اردو کی چند اور مختلف قسم کی اصناف ذکر اس سے یہاں کیا جارہا قارئین کا باعث ہو و تنقید کے کسی طالب علم کو اس موضوع پر کام کا خیال بھی آجائے.
ہاں البتہ لوری پر کچھ کام ہوچکا ہے اور محمدی بیگم (امتیاز علی تاج کی والدہ) نے اردو کی لوریاں جمع کرکے ایک مختصر مجموعہ شائع کروایا تھا.مالک نے لکھاہے کہ حامد اللہ افسر نے بھی کچھ لوریاں لکھی تھیں. ڈاکٹر قمر رئیس کے مطابق لوری کا مقصد صرف بچے کو سُلانا ممتا کا اظہار نہیں ہے بلکہ لوری وجہ سف چہاا ان س بچہا اپن ف پ
ہمارے ہاں شادی بیاہ میں جو گائے ان کا بہت دل چسپ ہے اور ان سے سے سماجی حالات سے ہے بیاہاا وکچھ بیاہا ا وکچھ بیاہا ا ن وکچھ بھاہا ن تو ترع رع یہ گیت شادی کے مختلف مرحلوں مثلا منہدی, رخصتی وغیرہ کی مناسبت سے گائے جاتے ” کاہے کو بیاہی بدیس ” جیسا معروف گیت امیر خسرو سے ہے.سید احمد دہلوی, بشیرالدین احمد اور اظہر علی فاروقی نے شادی گیتوں پر کام کیا ہے اور انھیں جمع بھی کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ شادی کے بعد مرحلہ بچے ولادت کا ہوتا موقع کے لیے بھی اردو گیت موجود ہیں جنھیں زچہ کہتے ہیں.امید سے سے لے کر ولادت تک الگ گیت ہیں ان گیتوں کو شاہد احمد دہلوی, اظہر علی فاروقی اور بسم اللہ نیاز نے پیش کیا ہے۔ لیکن معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اب ان روایات میں بھی فرق پڑرہا ہے زچہ گیریمہے ے وہور م مہےد دور س ق ووت ع
ساون کے گیت بر عظیم پاک و ہند کی خاص روایت ہے۔ وہ دور تو اب لَد گیا جب لڑکیاں بالیاں برسات کے موسم میں پیڑوں پر جھولے ڈالتی تھیں۔ آموں کا موسم ہواور اس میں بارش ہو توپکوان اور آم کے ساتھ ہم جولیوں کے ساون کے گیت سماں باندھتے تھے۔ لیکن اب ساون کے گیت اس کی نشانی پر گئے ہیں.یہ گیت بہت زمانے چلے آرہے ہیں اور محمد حسین آزاد ” ‘آب’ ” میں امیر خسرو کے ذکر میںساون کے اس مشہور گیت کو خسرو سے منسوب کیا ہے:
اماّں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
لیکن محققین کا خیال ہے کہ امیر خسرو سے منسوب اردو شاعری میں خا صا کلام ایسا ہے جا ایقر خخرد کی تخل ت ت ن کی تخل ت ت ن
ایک اور خاصی قدیم صنف جو اردو اور ہندی میں موجود ہے بارہ ماسہ کہلاتی ہے۔ ماسہ یا ماسا مہینے کو کہتے ہیں اور اس صنف میں سال کے مہینوں کے موسم کے احوال اور خود اپنے دل کا حا بتیان ا بتنان لیکن بعض شعرا نے تیرہ ماسا بھی لکھا ہے اور سے جدا رہنے کے عرصے کو سال کا ” تیرھواں ” اوکہر طاویل ن۔ مہین ہیاویل ن۔ مہین ما ڈاکٹر تنویراحمد علوی نے اردو میں بارہ ماسہ کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔
دُکھڑا اور زاری اردو کی ایسی دو اصناف ہیں جن میں پریشانیوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ عموما ً مے یا م اا مے مو مد مو ہیم و م م عو م م م ب خدانخواستہ کسی بچے کی وفات پر بھی خواتین دکھڑے گاتی تھیں۔ بعض اوقات خواتین مل کر زاریاں گاتی تھیں اور اس طرح ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہوجاتی تھیں۔ ڈاکٹر میمونہ دَلوی نے دکھڑے کے موضوع پر ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اردو کی کئی منفرد اصناف خواتین کی تخلیق ہیں اور وہی انھیں گاتی بھی تھیں۔ اسی طرح کی ایک صنف چکی نامہ بھی ہے۔ پہلے جب خواتین ہاتھ سے چلنے والی چکی پِیستی تھیں تو ساتھ ہی کوئی گیت بھی گاتی جاتی تھیں۔ ان چکی ناموں میں مذہبی عقائد بھی بیان ہوتے تھے۔ ایک عوامی یا لوک صنف ِ شاعری ” دَہا ” ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، دہے محرم کے دس ابتدائی دنوں کی صنف ہے اور لوگ ان دس ۔دنوں میںگےلی کوچہوئےا میں دہے پڑھتپڑھ یں قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول گردش ِ رنگ ِ چمن میں اس صنف کا ذکر کیا ہے۔
دوہا اردو اور ہندی کی وہ صنف ہے جو صرف مصرعوں مبنی ہوتی ہے اور جو آج مقبول اور م،بوّج ہے یکیاا ماگیا یاگیا فاا ہےاگی ما ما ما ما ما ما ما ما ما مکا ن ف یہ ایک طرح کی پہیلی ہوتی ہے جس میں دو سکھیاں پہیلی بوجھتی ہے۔ اس میں بالعموم محبوب یا شوہر کا ذکر واضح اشاروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا جواب بھی ممکن ہوتا ہے اور لیے جب دوسری سہیلی پہیلی بوجھ لیتی ہے پہلی سکھی صاف مکرجاتی اور جواب میں دوسری ممکنہ چیز کا نام لیتی ہے مثلا امیر خسرو سے منسوب یہ کہہ مکرنی دیکھیے:
” سگری رَین موہے سنگ جاگا
بھور بھئی تو بچھڑن لاگا
اس کے بچھڑن پھاٹت جِیا ”
” اے سکھی ساجن؟ ” ، ” نہ سکھی دِیا ”
یعنی وہ ساری رات میرے ساتھ جاگا ، سویرا ہوا تو بچھڑنے لگا ، اس کے بچھڑنے سے دل پھٹتا ہے۔ اس پر دوسری کہتی ہے کہ محبوب؟ لیکن وہ صاف مکر جاتی ہے کہ میں تو چراغ کی بات کررہی ہوں۔ اور یہ جواب بھی ممکن ہے کیونکہ چراغ یعنی دِ یا ساری رات ساتھ رہتا ہے اور منھ اندھیرے بجھت تا ان دھیرے کی تو ان دھیرے کی تو ان بت کی کی تو ان ندرے کی
ان مل کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں کچھ ایسی کو ملایا جاتا ہے جن کاکوئی جوڑنہیں ہوتا اور یہ خسرو سے منسوب ہے, گو تحقیق کہتے ہیں کہ امیر خسرو نے بار کنویں پانی بھرتی عورتوں کو کہا تو انھوں نے رکھی کہ پہلے ہماری چیزوں شعر میں لائیے ، نے پوچھا کہ کیا چیزیں دوسری نے کہا تیسری نے کہا کتا ، چوتھی نے کہاڈھول۔ خسرو نے کہا:
کھیر پکائی جتن سے اور چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھاگیا ، تو بیٹھی ڈھول بجا
لا پانی پلا!
دوسخنہ ایک ایسی صنف ہے جس میں دو باتوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ، جیسے: ڈوم کیوں نہ گایا؟ (ڈوم یعنی گیت) گوشت کیوں نہ کھا یا؟ جواب: گلا نہ تھا۔جوتا کیوں نہ پہنا؟ سموسہ کیوں نہ کھایا؟ جواب: تلا نہ تھا۔ وزیر کیوں نہ رکھا؟ انار کیوں نہ چکھا؟ جواب: دانا نہ تھا۔ گدھا اُداسا کیوں؟ مسافر پیاسا کیوں؟ : لوٹا نہ تھا۔ لیکن محققین کے نزدیک ان کا امیر خسرو سے انتساب مشکوک ہے۔
ایک اور صنف ڈھکوسلا کہلاتی ہے ۔یہ محض ہنسنے ہنسانے چیز ہے اور اس میں ایسے جاتے ہیں جو بظاہر تو پھو بھلھ ے.
قمر رئیس کی مرتبہ کتاب ” اردو میں لوک ادب ”, اعظم کریوی کی کتاب ” دیہاتی گیت ”, اظہر علی فاروقی کی کتاب ” اتر پردیش کے لوک گیت ”, ڈاکٹر قیصر جہاں کی کتاب ” اردو گیت ‘ ‘اور بسم اللہ نیاز کی کتاب’ ‘اردو گیت’ ‘میں اردو کی ایسی اصناف کی کچھ مثالیں مل جاتی ہیں۔لگی ف’اقی یہ کتاب آزادی سے قبل لاہور سے شائع ہوئی تھی۔میمونہ نے اپنی کتاب میں بمبئی اور کاون امبئی ہگیاوکن اہیںدو گیت جاوک ودو گیت جاوع کیے وت تو یگ پرت تو
دراصل ان اصناف میں سے بیشتر کی لوک ۔لیکن افسوس کہ اردو کے تفصیلی تحقیقی و نہیں ہوا ادب قدیم. بلکہ علاقائی تحتی بولیوں (ڈائیلکٹس) مثلا ہریانوی, گوجری, کوروی (کھڑی بولی) روہیل کھنڈی, بندیل کھنڈی, برج بھاشا, میواتی, اودھی, میتھلی, بھوج پوری, دکنی, کوکنی وغیرہ میں اور جب تک کوئی ان بولیوں سے کماحقہ واقف نہ ہو اسے اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔