احمد فراز
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا ، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا
کوئی شخص تھا میرے شہر میں ، کسی دُور پار کے شہر کا
چلو کوئی دل تو اُداس تھا ، چلو کوئی آنکھ تو نم رہی
چلو کوئی در تو کُھلا رہا شبِ انتظار کے شہر کا
کئی خوشبوئیں درِ دوست تک ، مرے ساتھ شمع بدست تھیں
مجھے پوچھنا نہ پڑا پتہ ، مِرے گل عزار کے شہر کا
یہ جو میں نے تازہ غزل کہی ، سو ہے نذر اہلِ فراق کے
کہ نہ مِل سکا کوئی نامہ بر ، مجھے میرے یار کے شہر کا
سو متاعِ جاں کو لئے ہُوئے پلٹ آئے تیرے گرفتہ دل
کسے بیچتے کہ مِلا نہیں ، کوئی اعتبار کے شہر کا
مِری طرزِ نغمہ سرائی سے ، کوئی باغباں بھی تو خوش نہ تھا
یہ مِرا مزاج ہے کیا کروں ، کہ میں ہُوں بہار کے شہر کا
کسی اور دیس کی اور کو ، سُنا ہے فراز چلا گیا
سبھی دکھ سمیٹ کے شہر کے ، سبھی قرض اُتار کے شہر کا