ارشادباری تعالی ہے: ” اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں, انہیں مردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں, لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعورنہیں ہے ” (سورۃ البقرہ) اسی طرح ایک. اور مقام پر ارشادفرمایا: ” اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ مت خیال کرو, بلکہ وہ اپنے رب پاس زندہ ہیں اورانہیں رزق بھی دیاجاتاہے ” (سورئہ آل عمران) سورۃ النساء میںاللہ تبارک وتعالی نے شہدائے کرام کوان لوگوں. کے ساتھ بیان کیا ہے, جن پر نے اپنا خاص فضل وکرم اورانعام واکرام اور انہیں صراط مستقیم اورسیدھے راستے و کسوٹی قرار دیا ہے.چناںچہ ارشادخداوندی ہے: ” جوکوئی اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺ کی (ایمان اورصدق دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے , پس وہ (روز قیامت) ان لوگوںکے ساتھ ہوگا, جن پراللہ تعالی نے (اپنا خاص) انعام فرمایاہے, جوکہ انبیاء, صدیقین, شہداء اورصالحین ہیں اوریہ کتنے بہترین ساتھی ہیں ”. (سورۃ النساء)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: شہدائے کرام جنت کے دروازے پر نہر بارق پر سبز قبہ میں اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہنچتا ہے (مسند احمد, مستدرک, طبرانی).
حضرت انس بن مالکؓ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نے شخص بھی جنت داخل تا وہ پسئےند کہ دنیا طرف قااا و مرف لاا جا و ب ر لہوٹ جن س ت ت لو جن ست ب (صحیح بخاری ، مسلم ، بیہقی)
شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث ہوئے تعلیمات مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی اﷲ کے دین سربلندی کی ہوتی کی. وہ راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میںمیری جان ہے, میری یہ آرزواورتمناہے کہ تعالی کی راہ میںقتل (شہید) کیاجائوں, پھرزندہ کیاجائوں, پھرشہیدکیا جائوں, پھر زندہ کیاجائوں, پھرشہید کیا جائوں, پھرزندہ کیاجائوںاورپھر شہیدکیا جائوں ”۔ (صحیح بخاری ، مشکوٰۃ المصابیح)
ماہ محرم ہمیں نواسۂ رسول, شہید کربلا حضرت امام حسین عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے نے کربلا میں ظلم باطل نظام کے خلاف بلند کرتے کربلا کے سالارسیدنا حضرت حسین کی ذات گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے, جس سے دین کے متوالے حق کی راہ پر حق وصداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے۔
سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کی ولادتِ باسعادت پانچ ہجری کو ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؓ کو شہد چٹایا۔ آپؓ کے دہن مبارک کو اپنی بابرکت زبان سے تر کیا اور دعائیں دیں ، حسین نام رکھا۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ کا چہرۂ مبارک رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور پاک مشولﷺ کےا جسم تاطہر کے
سیدنا حضرت حسین بن علیؓ انتہائی عبادت گزار تھے ، نماز ، روزے اور حج کا بڑااہتمام فرماتے ، ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے کہ غرباء ایک جماعت نظر آئی, جو زمین پر بیٹھی کے ٹکڑے کھا رہی تھی, نے انہیں سلام کیا, لوگوں نے کہا ” فرزند رسول ﷺ, ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے. ‘ ‘آپ گھوڑے سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ کھانے میں شریک ہوئے, پھر انہیں دعوت دی اپنے گھر لے جاکر سب کھانا کھلایا.رسول اللہﷺ نے ان کے میں گواہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’ ‘حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں. ” آپ ﷺ حضرات حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ” حسنؓ اور حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ ”
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں, رسول ﷺ میں باہر کہ آپ ﷺ ایک کندھے پر حسن اور دوسرے کندھے حضرت حسین کو تھے, یہاں تک کہ محبت کی, اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی, اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ ”
حضرت اسامہ بن زید سے مروی روایت کے مطابق ایک وہ سرور کائناتﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ‘آپﷺ باہر تشریف لائے تو کچھ اٹھائے ہوئے وہ نہیں جان سکے.دریافت کیا”آپ ﷺ کیا اٹھائے ہوئے ہیں?’ ‘آپ ﷺ نے چادر مبارک اٹھائی تو انہوں نے دیکھا آپﷺ کے دونوں پہلوئوں میں حضرت حسن اور حسین ہیں.آپﷺ نے ” بیٹے اور میرے نواسے ہیں. ” اور فرمایا ان محبوب رکھتا ہوں, تو بھی انہیں محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے, انہیں بھی محبوب رکھ۔ ”
سیدہ فاطمہ زہراءؓ فرماتی ہیں کہ میں حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر حضور پُرنورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہ ‘ور ع’ ‘ یہ دونوں آپﷺ کے نواسے ہیں, انہیں کچھ عطا فرمائیے. ” تو حضور ﷺ نے فرمایا ” حسن کے لیے میری ہیبت سیادت سیادت اور حسین کے لیے جرأت و سخاوت ہے. ” نبی آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا ” حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے, یا اللہ جو حسین رکھے, تو اسے محبوب رکھ. ” اور آپﷺ کا یہ فرمان مبارک ” جویہ چاہے کہ نوجوانان جنت کے سردار کو دیکھے, وہ حسین بن علی کو دیکھ لے. ‘ ‘
کربلا کا نام آج بھی ہمارے لبوں پر آتا ہے تو سیدنا حضرت حسین بن علی اور آپ کے مقدس جاں نثاروں کی ہمتوں اور شہادتوں کا تذکرہ ہمراہ لاتا سرزمین کربلا کا کہیں بھی ذکر ہے, تو اور جاں لازوال داستان کا خیال خود بخود و دماغ میں لگتا کربلا کی اور ہوائیں آج سیدنا حسین بن علیؓ اور کے جاںنثاروں ، جاںبازوں اور سرفروشوں کے سینو ۔ن میںت م ن ن مجزو جزن مھےت جز جب کبھی اور جہاں کہیں شہادت کی تاریخ رقم کی جائے گی ، کربلا کا نام نمایاں ہوگا۔
تاریخی روایات کے مطابق نواسۂ رسول, شہید کربلا 72 نفوس قدسیہ کے ہمراہ وارد اور میدان کربلا میں حق و صداقت اور جرأت شجاعت کی وہ بے مثال تاریخ رقم کی, جس پر انسانیت فخر کرتی رہے گی. جب سیدنا حسین ابن علی اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ کی جانب روانہ ہوئے تو آپ تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی: ” میں نے (اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا نے تاکید کے ساتھ اس میں مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے ، اب بہرحال میں یہ کام کروں گا ، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ابھی تک کسی کو نہیں بتایا ، نہ بتائوں گا ، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل ے ” جاملوں ے ”
امام حسینؓ اور ان کے رفقاء معرکۂ حق و باطل حق و صداقت اور جرأت و کا علَم بقلند کیے ریگ مصود کے مگئےوا مود کےر ت ت ب
دنیا کی تاریخ کا ہر ورق انسانوں کے لیے مرقع ہے, خصوصا دنیا کی تاریخ کے واقعات انسانوں کے لیے ہر زندگی میں اہم لاتے ہیں, جو ہوسکتے.اسی لیے قرآن کریم کا ایک بہت بڑا حصہ قصص اور تاریخ پر مشتمل ہے ‘قرآن پاک نے قصص کے ٹکڑے بیان کرکے نتائج کے لیے پیش فرمائے ہیں۔
سیدنا حضرت حسین بن علی کی شہادت, نہ صرف کا اہم واقعہ ہے, بلکہ پوری دنیا تاریخ میں بھی اسے امتیاز حاصل ہے, اس میں ظلم و آل رسولﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کے مقابلے پر جہاد, اس پر قدمی اور جاں واقعات ہیں ، جن کی تاریخ میں ملنا ہے ، ان میں آنے اور حکمتیں پوشیدہ.
آپ کا وہ تاریخی خطبہ جو آپؓ نے مقامِ بیضہ میں دیا ، تاقیامِ ہماری رہنمائی کرتا رہے گا اور ہمیں ک ا نے حمد و ثناء درود و سلام بعد پُرجوش انداز میں:! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسے دیکھا جو ظالم ہے, خدا کی حرام کی ہوئی کو حلال کرتا ہے, کے عہد کو توڑتا رسول کی مخالفت کے درمیان گناہ زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے (پھریہ سب کچھ) دیکھنے والے کو اس پر یا قولا غیرت نہ آئی تو یہ حق ہے کہ اس کی جگہ اس کو, تم کو آگاہ کرتا ہوں ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اور رحمن چھوڑدی اللہ کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا, حدود خداوندی کو معطل ہے, غنیمت میں اپنا زیادہ لیتے ہیں, خدا کی حرام اشیاء (ازخود) حرام کردیا ہے, اس لیے ان باتوں غیرت آنے کا زیادہ حق ہے, میرے پاس کے تمہارے خطوط آئے بیعت پیام لے کر تمہارے قاصد نے کہا کہ تم مجھے (ہرگز) دشمنوں کے سپرد نہ کروگے اور بے یارومددگار نہ چھوڑو گے, اگر تم اپنی بیعت کا حق ادا تو ہدایت پائوگے, میں حسین بن وابن فاطمہ بنت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں, میری جان تمہاری ساتھ اور میرے اہل بیت تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں, تمہارے لیے میری (بہترین) نمونہ ہے ، اب اگر تم فرائض بجا نہ عہدوپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے! تم سے یہ بعید نہیں, تم میرے والد, بھائی اور زاد کے ساتھ ایسا کرچکے ہو, جو تمہارے میں آئے, وہ فریب خوردہ تم نے عہد کر اپنا حصہ ضائع کردیا (تو) جو عہد شکنی کرے, اس کا وبال اس کے سر ہے ، عنقریب خدا مجھے تمہاری امداد سے بے نیاز کردے گا۔ (طبری)
نواسۂ رسول, حضرت امام حسین شہادت کے عظیم رتبے سے سرفراز شک اللہ تعالی نے ان کی لیے یہ دن عطا جس دن کی عظمت دیگر دنوں سے حرمت والی ہے.آج آراء ہو چکی ہے, ان حالات میں ضرورت ہے کہ ہم اسوۂ شبیری پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں۔ معاشرے میں قیامِ امن ، رواداری اور تحمّل و برداشت کے فروغ کے لیے اُسوۂ پر عمل پیرا ئےّیوتیگ یہوا ن وم وا آہن توتے ہہوا آہن ت ورد ّیغوا ن تاو اد