مسجد قرطبہ پورے قرطبہ شہر کی پہچان ہے۔ 1984 ورلڈ ہیریٹیج سینٹر کے مطابق ، یہ مسجداپنے حجم اور اپنی اونچی چھتوں کی وجہ سے ایک انوکھے تعمیری کارنا مے کی نتمائ
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ وہی جامع مسجد ہے ، جس کی عبد الرحمان اوّل الداخل نے eight ویںم صدء کے او ر (786 ء) عور (786 ء )ع یہ مسجد وادی الکبیر میں دریا کے پل پر اُس جگہ تعمیر کی گئی ، جہاں سینٹ ونسنٹ کا گرجا گھرموجود تھا۔ اس کاکچھ حصہ مسلمان پہلے ہی بطور مسجد استعمال کر رہے تھے ، عبد الرحمان اوّل الداخال نے بہور بخخاری یر روا ور یر بترد یہ شاندار مسجد صرف دو سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی اور اِس کی تعمیر پر 80 ہزار دینار خرچ ہوئے۔ اِس کے بعد 10 ویں صدی تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجد کی تزئین و آرائش اور توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔
اس مسجد کی چوڑائی 150 میٹر اور لمبائی 220 میٹر کے قریب تھی ، اِس مسجد میں 14 سو سے زائد ستون تھے۔ شاہ فلسطین نے جہاز میں ساڑھے four سو من قیمتی پتھر بھجوائے۔ مسجد کی چھت 30 فٹ کی بلندی پر تعمیر کی گئی تھی ، جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہوا۔ چھت کو سہارا دینے کے لیے کئی ستون تعمیر کیے گئے ، اِن ستونوں کی کثرت سے مسجد میں خود بخود راستے بن گئے۔ , ہر دوسری محراب پہلی محراب کے اوپر کیا گیا سے جا ملی ہر ستون پر دوہری نعلی محرابیں نصب کی گئیں, میں اندلس کے فن تعمیر کا قرار پائیں, ان, جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں. چھت میں 280 ستارے نصب کئے گئے ، یہ ستارے اندرونی دالان میں نصب تھے اور خالص چاندی کے بنے ہوئے تھے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں نصب بڑے فانوس میں بیک وقت ایک ہزار چراغ روشن ہو تے تھے۔ چراغوں کے لیے سال بھر میں ساڑھے three من موم کے علاوہ 300 من تیل جلایا جاتا تھا۔ مسجد میں روشنی کا انتظام اِس قدر بہتر تھا کہ رات کے وقت بھی دن کا گماں ہوتا تھا۔

مسجد قرطبہ میں نصب ستون زیادہ تر اشبیلیہ, اربونہ سے منگوائے گئے تھے لیکن تعداد ہونے کی وجہ سے امیر الرحمان اول الداخل نے اندلسی سنگ مر کر ایسے سے کیا, ان ستونوں نے مسجدکی تزئین و آرائش میں مزید اضافہ کردیا, یہ سارا کام نہایت نفاست اور ماہرانہ کے ساتھ انجام دیا گیا۔
ابتداء میں مسجد میں 9 دروازے نصب کیے گئے تھے ، بعد میں اِن کی تعداد 21 تک جا پہنچی ، اِن میں سےم three دجاان میں سےم three دراوازے ناب مور اب مرور 9،ا باور 9،اب مور ن،اب مور 9،ا باور 9نا باور 9دا باور 9غا باور 9یںا باور 9غا ب ما 9 م ااب مور 9 مشرق اور مغرب کی جانب نصب دروازوں میں صرف ایک ، ایک دروازہ خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ مسجد کے تمام درودیوار اور فرش کو خوبصورت پتھروں سے مزین کیا گیا چھت نقش ونگار اور مختلف چوبی پٹیوںسے آراستہ تھی, خاص کے دروازہ پر سونے کا کام کیا اسی طر ح مسجد قرطبہ کی محراب کے لیے استعمال جانے والاسنگ مر مر دودھ سے زیادہ سفید چمکیلا تھا ، صناعوں نے ہفت پہلو کمرے دی تھی جانب گیا ، اُس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل میںجو آرچ بناں ااو تھی و او ھ
اس محراب پرخوبصورت اور رنگین نقش ونگار بنائے گئے کے الخط میں قرآنی آیات لکھی گئیں, کا خوشبو دار قیمتی لکڑی کے کی دیواروں اور چھت پر خوبصورت خطاطی سے مزین قرآن مجید کی آیات مبارکہ کندہ کی گئیں.
1236 ء میں اندلس میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد ، دوسری مساجد کی مسجد قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی۔ 10 سال بعد 1246 ء میں اسے گرجا گھر میں بدل دیا گیا۔ 15 ویں صدی میں مسجد کے وسط میں ایک کیتھولِک گرجا کردیا گیا ، جہاں عیسائیوں کو عبادت اکی اجازت ہےن اےب اازت یکتن اولم ن نوںد ع ع فرد تھے, جنھوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی میں پابندی کے باوجود اذان دی, ادا کی اور’مسجد قرطبہ ‘کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی, مگر ان کے بعد مسجد میں پھر خاموشی کا راج ہے. دسمبر 2006 ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں جامع مسجد قرکیبہ میں عباد رکیبہ میں عبادت کر ک ا اار د د اکی اج ازرت د در ای اجازت دی دی اخ اجازت دی د ا اسات ست صدیوں تک ریاست کی ملکیت میں رہنے کے بعد ، اسپین کی 2014 ءمیں بالآخر اسے 30 یورومیں کلیسا کو فروِت گکیاوکی میں فروخم کیکیجےاوکی م روِم کیکیاوکی م روِم کیاوکی م برت مل ردی مرت ست رد الم جروِ.
ہر سال اسپین آنے والے سیاحوں میں سے تقریباً 14 لاکھ سیاح ، مسجد قرطبہ کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے آتے ہیںرنے آتے ۔رنے آتے ۔رنے آتے۔