صوبائی حکومت نے تاریخ کی بدترین اور کے مارے ملازمین اور محنت کشوں کے ایک زائد عرصے سے جاری کے بعد کی قبر پر کے اجرت محنت کام کے آجرت میں صوبائی بجٹ سے ہی اعلان کرکے کرنے کی کوشش کی مگر دوسرے طرف اسمبلی میں اپوزیشن کے کی تعداد آئینی قراردے اور ضم انوکھا احتجاج کرکے حکومت مشکلات کیا.
صوبے کے سرکاری ملازمین اور محنت گزشتہ سے زائد سے ملک میں کمرتوڑ مہنگائی کے احتجاج تھے اور مہنگائی تناسب سے اجرت میں اضافے تھے نے ایک لتے کانفرنس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے جبکہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کی سے اجرت تک اظہار کیا ہے مگر یومیہ اجرت پر کام کرنے والےمحنت کش بدستور مایوسی کا شکارہ ہیں۔
ان کہنا ہے کہ جب ان کی کم سے کم ماہانہ اجرت 17 ہزار روپے تھی ا س پر کس کیا جوکہ اب ان کے لئے ماہانہ انصاف میں شامل کارخانہ داروں نے محنت کشوں کو حکومت کی جانب مقررکردہ پر کیا, یہی وجہ ہے محنت کش اصل بات فیصلے عمل درآمد کے اعلانات محض سیاسی ڈھکوسلہ ہوسکتا ہے۔
صوبائی اسمبلی اپوزیشن نے صوبائی کابینہ کے اراکین کی تعداد حوالے سے آئینی نکتہ اٹھاکر حکومت کو مشکل ڈال دیا, صوبائی اسمبلی میں رکن احمد کریم اسمبلی کے اٹھاتے تصیح کی جائے, اپوزیشن رکن کا کہنا تھا کہ آئین وزیراعلی سمیت کابینہ کےوزراء کی تعداد 15 یا مجموعی تعداد کے 11 فی صد ہوگی, کابینہ وقت وزیراعلی سمیت وزراء کی تعداد 17 ہیں, کابینہ کی تعداد غیر قانونی ہے, تعداد کم کی جائے, 17 ممبران کی کابینہ غیرقانونی اورغیرائینی ہے. وزیر قانون فضل شکور نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے اختیار کہ اس وقت کابینہ کے 15 وزراء کومحکمے ئیےےاگئےا کومحکمے دئیے گئےد ہیں ا وع
ایک درجن سے زائد وزرا کے علاوہ مشیروں اور فوج رکھی گئی ہےجوکہ اس غریب کو گدھ کی طرح رہے ہیں, صرف یہی کا نعرہ کے سے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جس ان کے جہاں سراپا احتجاج ہیں وہاں ان علاقوں اسمبلی کے لئے پہلی منتخب عوامی پر مجبور ہوچکے میں میں سے مرتبہ ہونے والے ارکان اسمبلی نے اسمبلی جاری احتجاج کی تاریخ رقم کرتے ہوئے ان اضلاع اراکین نے ایک ساتھ کے آغاز تک پورا دن پر کی کیلئے وترقی کردہ فنڈز کی فراہمی میں تاخیر پر احتجاج کیا.
تاہم حکومتی پارٹی میں شامل قبائلی اضلاع کے ارکان اسمبلی اس احتجاج سے دور رہے۔ اسپیکر سمیت صوبائی وزراء کی جانب سے منت سماجت بھی ان ارکان کو احتجاج ختم کرنے پر راضی احتجاج کرنے والوں میں اسلامی, عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء اسلام کے اسمبلی شامل تھے. انکا کہنا تھا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت قبائلی علاقوں کو انکا حق دیا جائے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اضلاع میں سندھ کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے آگے سیسہ پلائی دیوار کے طرح کھڑے رہے اوربے دیکر ملک کو بچاتے رہے وہی لوگ پہلے کی بھی نہ صرف پسماندہ ہیں بلکہ آج بھی محروم
ان کوشیشوں کے دوران قبائلی علاقوں کے انفراسٹرکچر کو تباہ رکھ گیا ان قبائلی کے محافظ اور نڈر بہادر اور نعروں سے ٹرخایا جارہا القابات برطانوی عاصبوں کے دور سے چلے آرہے ہیں لیکن دوران ان لوگوں کو تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا.