سید ثقلین علی شاہ نقوی
” محرم الحرام ” اسلامی سال کا وہ عظیم مہینہ ہے جس میں تاریخ ساز اور عظیم قربانی کا پیش آیا, جس وجہ اسلام کو ایک نئی اور ان کے جاںنثاروں, رفقاء, معصوم بچوں اور خاندان کی مستورات کی غم و اندوہ بھری داستان کی یاد تازہ ہوجاتی کربلا حضرت امام حسینشعبان four ہجری کو پیدا ہوئے اور three جمادی الثانی کو اپنی مادر, خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء کی والد شیر خدا حضرت علی المرتضی نے آپ کو اور حسنہ سے بہرہ ور کیا. سے جس کے بعد حضرت حسین نگہداشت کی ذمہ داری ہوئی ، ؓ بھی داغ مفارقت دے گئے تو اس وقت امام حہکےن ؓ صفات حسن ؓ صفات حسن یہی وجہ ہے کہ آپؓ میں تمام جملہ صفات حسنہ موجود تھیں۔ آپ ؓ کے طرزِ حیات میں رسول اکرم حضرت محمد ﷺ ، شیرخدا حضرت علیؓ ، سیدہ فاطمہ ؓ حسن ؓ کا کردار نمایاں تھا۔ آپ ؓ کا ہر قول و فعل قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتا۔
61 ہجری کو امام حسین ؓ اپنی مختصر سی اور خاندان کو لے کوفے روانہ ہوئے ، راستے میں حُر ملاقاااااا حُر ملاقااااای حُر ملاقاااایں حُر ملاقاااا حُر ملاقاااا ر ملاقااات عدون ملاد مد م ملاقاات ہعنئی ، باد مد م ملاقاات ہعنئی ، باد مد مل ملاقاات ہعون کےملاد مع ن واقعات پر غور کیجیے پہلے تو امامؓ مدینے سے مکّہ اور کربلا کا رخ کیا۔اس ساری داساان مقصد صاف ۔حصووا فحصد صاف اوور الوق دور عو رع امام عالی مقامؓ جانتے تھے کہ اس راستے پر چلنا چاہیے جس سے دین کی سربلندی ہو۔ جہاں سے پھر واپسی کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ امام عالی مقام ؓنے عاشوراء کے دن ابن زیاد کے عہدیداروں سے کہ اگر اہل کوفہ نہیں چاہتے میں اوہیں اجوچ ، و ، و کےو یںو یںر س وچھ ن وا کےر س سو، آپ قصر بنی مقاتل کی منزل سے روانہ ہورہے تھے ، ابھی حرنے زیاد کو جو خط لکھا تھا ، کا جکیاب نہیں آخاا لئے ہ و ل ل امام حسین ؓ یہ جانتے تھے کہ یہ لوگ میرے خون کے ہیں ، مسلم بن عقیل کے خط حسین ؓ مکے سے روانہ ر۔الے میں سنت س یہاں تک کہ عراق کے نزدیک پہنچ کر امام عالی مقامؓ کو یہ ملی ، حالات وہ نہیں رہے ، جن کی مسلم بن عقیل ھیع تل نے تل حالات بالکل بدل چکے ہیں ، مسلم بن عقیل شہیدہوچکے تھے۔ عبداللہ بن بقطر جو کہ مسلم بن عقیل اور اہل کوفہ کے نام خط لے کر تھے ، وہ راستے ہی میں گرفتاچکےر ہو کر قتل ہو
حضرت امام عالی مقامؓ نے اپنے ہمراہیوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہاں آکر ایک تحریر پڑھی۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ” اے لوگو, کوفے سے جو اندوہناک آرہی ہیں, وہ تم لوگوں نےسن لی ہوں گی, لوگوں ہمارے ساتھ بے وفائی کی ہے, میں سفر جاری رکھنا چاہتا ہوں. تم میں سے جو شخص مال و منال, مقام, اور خوش حال زندگی کی امیدیں ساتھ آیا ہے, وہ لوگ اثنائے راہ میں کے ساتھ ہوگئےتھے, وہ چلے گئے, اور وہ لوگ جو مدینے سے ان کے ساتھ آئے تھے, ان کے علاوہ چند ایک افراد راستے میں ساتھ ملے ، وہ ثابت قدم رہے۔
کربلا میں ضرورت ہی ایسے لوگوں کی تھی جو با ہمت اور بلند حوصلہ ہوں۔ کربلا پہنچنے سے پہلے امام حسینؓ نے ایک مرتبہ فرمایا: ہم موت کے استقبال کے لیے جارہے ہیں۔ یہ ضروری بھی تھا کہ لوگوں کے ذہن نشین کردیا جائے کہ وہ کی حکومت لینے نہیں آئے ، بلکہ انہیں ان کے ہاگیتھ پار بییوت کےل لار بییوت کےل ل ل اسی لئے امام عالی مقامؓ نے بار بار فرمایا کہ اگر تمہیں میرا آنا پسند نہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ یہ خیال نہ کرو کہ میرا ہاشمی خون جوش میں آگیا ہے ، اب مجھ میں زندہ کی تاب نہیں ، اب میں خہود کو م۔اا کے حنولے ک ري امام عالی مقامؓ کے گھرانے نے استقامت طے کرکے ایک پیغام دیا کہ گھروں میں کر کا تذکرہ کاااااااااا ہیمو ہے اوی بقول محسن نقوی :۔
احساس کربلا تُجھے ہوجائے گا اُس دم
تنہا کسی جوان کی لاش اُٹھا کرتو دیکھ
ہمیں حضرت قاسم کا وہ جملہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کڑھیل جوان نے چچا حسینؓ جانب دیکھ کر کہا ، چچمیٹھی مہےد ا ، چچمیٹھی مہےد ہا میٹھی شہد رے سے شہد مسلم بن عقیل کے فرزندان کی اسلام کےلیے بے مثال قربانی بھی یاد رکھنی چاہیے۔ ہمیں وہ وقت کبھی نہیں بھولنا چاہیے ، جب اما م عالی مقامؓ نے شیر خواربچےاور پردے دار خواتیا یےو خیمے تیںت رر یےو خیمے تیںت ري جب امام حسین کربلا گئے تو اہل کوفہ کرکے کہا کہ اے لوگو, تم مجھ مقابلہ کرنے آئے ہو تم نے اپنی ﷺ کی میں ہوں, کیا تم نے رسول ﷺ سے نہیں سنا تھا کہ جس نے حسین کو غم دیا, اس نے مجھے مغموم کیا۔ اے لوگو ، تم نے نہیں سنا تھا کہ جب رسول ﷺنے فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔ اللہ اسے دوست رکھے جو حسین ؓ کو دوست رکھے۔
معرکہ کربلا میں حضرت امام حسین ؓنے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کی قربانی دی ایسی مثال ققائم کہیںن جم ر ر ہیںاگئےم کن ر ظیس امام حسین ؓ 10 محرم کو کربلا کے تپتے ہوئے ریگستان میں شہید کردیئے گئے۔ آپ کے ساتھ سب سے کمسن اور ننھے مجاہد اصغر نے میدان کربلا میں کیا, وہ تاریخ اسلام کے ننھے مجاہد تھے, ان خون نے کو رکھا, ورنہ کرنے محکم کرلیا تھا. ” واقعۂ کربلا”ہمیں صبر و استقامت, جرأت و شجاعت ، باطل کے آگے سینہ سپر ہونے اور حق و صداقت کا علم بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔ شہدائے کربلاؓ کا فلسفہ شہادت ہمیں یہ پیغام دیتا نظر آتا ہے کی سربلندی اور دین مبین کی عظمت کے لیےا ن نھی رب