زبانیں باغیچوں کی طرح ہوتی ہیں

آپ کو معلوم ہے ناں کہ اردو زبان کو شروع کرنے کا حضرت نظام الدین اولیاء نے حضرت امیر خسرو کو دیا تھا.یہ 1300 ءکے آس پاس کا دور تھا, یعنی شروع ہوئے تقریبا 750 سال ہوچکے ہیں. ٹیپو سلطان نے بھی اردو زبان کی سرپرستی کی تھی۔ مرزا دبیر اور مرزا انیس کے مرثیے 1750 ءکے آس پاس کے کہ جو آج بھی پڑھے جاتے ہیں.انگریزوں نے 1801 ءمیں فورٹ ولیم کالج میں “اردو کالج” قائم کیا تھا.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے آغاز سے لیکر 1857 ءتک تقریبا 550 سال پرانی اور مستند زبان بن چکی تھی ، کہ جس میں تاریخ ، شاعری اور ادب اپنی معراج کو پہنچ چکا تھا۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کا دور کا ہی ہے .1300 ءسے لیکر 1857 ءتک اردو زبان میں پوری تاریخ حدیث و تفسیر, اور دیگر معاشرتی علوم کو پڑھائے جاتے یقینا ہزاروں لاکھوں کتابیں ان 550 سالوں میں لکھی گئی ہونگی.

ذرا غور کریں ۔۔۔ یہ لاکھوں کتابیں آج کہاں غائب ہوگئیں ۔۔۔؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا دردناک پہلو ہے کہ جس کی ہی مٹا دی گئی ہے۔ 1857 ءکی جنگ آزادی کے نے کتب کہ جس میں فارسی اور اردو کی لاکھوں سے لکھی ہوئی تھیں, کو جلا کو 1857 ءکے بعد کی چھپی ہوئی تو اردو کی کچھ کتابیں تو مل جاتی ہیں, مگر 550 سال کی تاریخ میں ہاتھ سے لکھی گئی اردو کی کوئی کتاب ہی نہیں ملتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کتابوں کو آسمان کھا جائے ، زمین جائے۔جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے جاو کنت ام یلجا میں سرد رروری ہیلجا مہذی ستوری لجا میں ستوری

ہزاروں علماءاور اشرافیہ کو قتل کیا مدرسے لاکھوں کتابیں اس ظلم کی تاریخ لکھنے بھی پابندی لگادی گئی.انگریزوں میں تو پورے میں کسی خلاف ہونیوالے ظلم کو کرکے کوئی کتاب لکھ سکتا. جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس ظلم کو ہوتے دیکھا ، وہ چند سالوں میں اس دنیا سے گزر گئے۔ آنے والی نسلوں نے صرف انگریزوں کی غلامی دیکھی.علامہ بات پر آنسو بہاتے تھے کہ علم موتی وہ کتابیں دیکھیں ان کو میں تو دل ہے سیپارہعیسائیوں نے اندلسیہ میں مسلمانوں, مگر ہندوستان میں اردو زبان کو مکمل تباہ کردیا.ہوسکتا کہ کہ زبان کی ہاتھ سے لکھی پرانی کتب کسی کتب خانے گھر میں یا کسی کی ذاتی ایک آدھ رکھی ہوں ۔۔۔ مگر انتہائی تلاش کے باوجود گئی اردو کی کوئی کتاب آج تک نہیں ملی۔اور قوم کو اس ظلم کا احساس ہی نہیں ہے۔

آج اردو زبان اس ظلم کے باوجود بھی عالم اسلام کی دوسری بڑی نمائندہ زبان ہے۔ بنگلہ دیش سے لیکر ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، سری لنکا اور اب خلیج کے تمام ممالک مجھی بجالی اور سم بجولی اور سم زبانیں بھی پھلدار درختوں اور باغیچوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کی آبیاری کی جائے تو ہیں, ہیں, ورنہ اجڑنے ہیں آخر میں سوکھ کر جاتی ہیں.ہمارے پاس اب جو اردو وہ وہ صرف بعد جو بچی کھچی اردو زبان ہمارے حوالے کی گئی, ہم اس بھی حق نہ ادا کرسکے.سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید اصطلاحات میں ترجمہ نہ کیا ، لہذا انگریزی کے

حالانکہ تمام حکومتی معاملات اور معاشرتی علوم بہت آسانی سے زبان میں چلائے جاسکتے تھے.دنیا کی تمام قوموں سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی زبانوں میں اپنی قوم ہوں یا چینی, ترک ہوں یا عرب, ایرانی ہوں یا ہسپانوی … کسی کو یہ شکایت نہیں ہے کہ ان کی قومی سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں مسکین ہے.ہمیں یاد ہے بچپن میں ہمارے سکول ون, ٹو اور وغیرہ, چہارم اور پنجم ہوتے تھے.ہم نے پہاڑے بھی اردو میں یاد کیے تھے, جیومیٹری بھی اردو میں تھی۔زاویہءقائمہ ،

Proper triangle تھا۔ یہی بچے آج عظیم ڈاکٹر ، انجئنیراور دانشور ھیں 80 کی دہائی کے بعد تو اردو زبان کو پاکستان میں مکمل طادور پر یتیم کر ر م ردور پر یتیم ر تیم اب اردو کو عزت دینا تو دور کی بات, طور پر سربازار رسوا کیا جاتا ہے.کسی قوم کا عروج و زوال دنیا میں اس و غیرت, سے نہیں, بلکہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ کس قدر اپنی تاریخ, نظریہئ, روایات, اقدار ، زبان ، ثقافت اور تہذیب کے معاملے میں حساس ہے۔

جو قوم اپنی تاریخ گم کر بیٹھے, اپنی زبان کو کردے, پھر چاہے کتنی مالدار ہی کیوں نہ کے نصیب میں صرف و رسوائی ہی ہوتی ہے.اپنی زبان, تہذیب, تمدن, اخلاقیات اورروایات کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی مال و دولت کی ضرورت نہیں ، صرف نیت و غیرت و حکمت چاہیے۔ اگر اردو ہم سے گم گئی ، تو سمجھو سب کچھ ہم سے گم گیا۔



About admin

Check Also

ادب میں نئی تحریک کا سوال

یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن یہ کوئی طبع زاد یا بالکل نیا اور اچھوتا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *