علم سیکھنے اور سکھانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ , جن تمام دنیامعترف ہے, ان میں محمد بن موسی عمر خیام ہمیں تایخ میں کئی مسلمان سائنسدانوں کے نام نمایاں نظرآتے ہیں, البیرونی, ابن خلدون اور ابن الہیثم قابل ذکر ہیں. تعلیم ، نظام زندگی کا احاطہ کرتی ہے ، ساتھ ہی معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے اور بچوں کی اچھی میں بھی م۔تاہے ہون ہ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال وفاقی وزارت تعلیم نے شرح خواندگی کے ح والے سے 10 سالہ رپورٹ جاری کی تھی ، ج ج یں ط رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد ہے۔
عام طور سے دینی اور دنیاوی تعلیم کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے۔ تاہم ، دونوں کی ہی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہمارے یہاں مدرسوں میں رائج نظامِ تعلیم کے علاوہ جو دوسرا نظامِ تعلیم ہے ، اس کے بھی دو معیارِ ہیں۔ ایک وہ جو سرکاری اسکولوں میں نظر آتا ہے اور دوسرا پرائیویٹ اسکولوں میں۔ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کا حال اتنا فرسودہ ہے کہ قابل اساتذہ ہیں اور نہ ہی نصاب, سالہا سال پرانا آج بچوں کو پڑھایا جارہا ہے جبکہ دیگر سہولتوں کابھی فقدان یہی وجہ ہے کہ جو لوگ صاحب حیثیت نہیں, وہ اپنے کو پرائیو یٹ اسکولوں میں تعلیم کی جستجو میں لگے رہتے چاہے اس کیلئے انھیں اپنا پیٹ ہی کیوں کاٹنا پڑے۔
دوسری جانب پرائیویٹ اسکولوں میں بھی دو طرح کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں ، تو صوبائی نظامِ تعلیم کے ح ات ہوت ست ور سندھ کی سطح پر بات کی جائے تو یہاں اب بھی سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی وہ کتابیں پڑھائی جارہی ہیں جاو آج سے کئی دہائی پہلئی بج پڑھلئی بج پڑھلئی بج پڑھ ایسے میں والدین اپنے بچوں کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کا بچہ کچھ سیکھ سکے۔
بچے کو ابتدا میں گھر سے ہی تعلیم ملتی ہے ، جو اس کی بنیاد بناتی ہے۔ اس کے بعد بچے کو اسکول میں داخل کروادیا جاتا ہے ، جہاں وہ گارٹن یا نرسری سے آغاز کرتکم یو ا اا رئتکم پو ا ان یںو تجم لعر عر تم ہو ا پان و تجم لعر عر تم پو ا ان چو تجم لعر عر ئم کو ا ان و تجم لعر عر اتکم پو ا ان چو تلم لعر عر اتم پو ا چ ج پرائمری تعلیم کسی بھی بچے کی شخصیت اور شعور کےلیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے بہت متجسس ہوتے ہیں۔ لہٰذاان کے تجسس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہیے۔
دنیا بھر میں پرائمری تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہی بچے کی بنیاد (base) بنااتی ہے اوپڑگئیم یکاپدو ہے او ضر اپد ر او ر او اب او پر اب او ر او تر نآر تن یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے طریقہ کار ، سہولتوں اور اساتذہ کے انتخاب تک ہر مرحلے کو اہمیت دی جاکےتی جا، پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030 ء تک اپپ مہر چےعااو نار تر عر عمی مر بچےا ر ع امر چےع کر ع امر چےع ر ع ر ع ر امیم ہع ر یع ر ر ع
مستقبل کے لیے کسی بھی طالب علم کی سمت متعین کرنے میں ثانوی تعلیم کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ تعلیمی اور عملی زندگی میں بچوں کو TRIBE (سائنس ، ٹیکنالوجی ، اِموو موہم یجموہور یجموکیشن یںمیجون یجمیجویجم یجمیجون یجمیجون ھمیجوتر اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھریں۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جن بچوں میں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیتیں ہوتی ہیں ، وہ STEM لرننگ میں دیگیںم چظاوں کے ن تابت. آئیڈیاز پیش کرنے میں مدد کریں گی اور ملک کو نئے موجد ، انٹرپرینیورز ، لیڈرز اور کارآمد ملیں گے ک بو مل ی وقوت
عالمگیریت اور مسابقت کے اس دور میں ہرکوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس ، بائیومیٹرکس ، مشین لرننگ آٹومیشن ، فوڈ سائنسز اوم یگاا ر م ر ر بام دیگر تنیکی تعلتم طالب علموں کو چاہیے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے شعبوں سے ہٹ کر کسی ایسے میں تعلیم حاصل کریں, جن مستقبل میں مانگ اور روزگار کے وسیع مواقع دستیاب بہت سی مقامی یونیورسٹیاں بھی ایسے بیچلرز اور ماسٹرز پروگرام کررہی جبکہ اس ضمن میں نامور غیرملکی یونیورسٹیوں کے آن لائن کورسز بھی دستیاب ہیں (کئی کورسز بلامعاوضہ بھی کروائے جاتے ہیں)۔
اس کے علاوہ بہت سی موبائل ایپس اور سوفٹ ویئرز بھی طالب علموں کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیںابت ہوتے ہیںابت ہوتے ہیںابت ہوتے ہیںابت وتے ابت وتے لہٰذا ، شرح خواندگی میں بہتری لانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ four سے 5 سال کے دوران مصنوعی ذہانت (AI), مشین لرننگ اور ڈیٹا میں مہارت رکھنے والے افراد لیے لیے کے سب سے زیادہ مواقع پیدا ہونگے.
تعلیم وہ روشنی ہے ، جو اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس بات اہمیت بڑھ ہے کہ صنفی مساوات کا لازمی خیال رکھا تاکہ کے ساتھ ساتھ خواتین باشعور اور پڑھی ہوں تاکہ وہ عملی کی بہتر انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اس کی تربیت بچے کے اچھے کردار کی بنیاد بنتی ہے۔ بچے کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور وہ اس کے طور طریقے ، عادات اور دلچسپیوں کو مستعار لیت ہے۔ ماں بچے کو اچھے بُرے کی تمیز اور صحیح غلط کی پہچان سکھاتی ہے۔
ذہنی پسماندگی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو معیوب سمجھا جاتا رہا ہے ، کچھ سالوں سے صوہ کتحال سے صوہ تحال سے ںوں ب لتال سے وںب لتال سہ وت ب ہر انسان میں (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائدہ اٹھایا ائےدہ ہاٹھایا
تعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر اپنے معاشرے کو کیائدہ کرچانے پہنچانے پہنچانے پہنچانے آج دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے ، جو اُس کے ساتھ نہیں چل پاتا ، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی بھی ہے تاکہ ملک میں ناصصرف معیارِ نصہرف معیارِ تعلکہرف اہہارِ تعلکہدا ویںو بو بو بہو بہو ہو ب