علی محمد فرشی کی طویل نظم ” علینہ ” جب ٹکڑے ٹکڑے سامنے آ رہی تھی ‘وقفے وقفے سے اور اپنے لیے عنوا لاا لیے عیہوان لگاا ل مو للو ل ر تو عر سر تو شق تاہم ہر نظم پہلی سے ذرا فاصلے پر۔
وہاں شام کا جھٹپٹا ہوتا …… یہاں ٹیکل …… ادھر کل کی سیاہی …… اور ادھر آج کا چمکتا پُل ……
اور ” علینہ ” یہاں وہاں اپنا مقا م بدلتی نظرآتی۔
کبھی کبھی یوں لگتا کہ ” علینہ ” آسمانوں کی وسعتوں میں کی طرح پھیلی ہوئی ہے او ر.
خدا لگتی کہوں تو ماجرا یوں ہے کہ میں ایک مرحلے گماں سے بھی گزرا تھا ‘ہو نہ ہو نظم کی تخلیق یہ تجربہ اپنی نہاد میں ایس ایلیٹ’ ” ویسٹ لینڈ لینڈ”کے زیر اثر ہو رہا ہے. نظم کا ایک سمت بہے جانا ‘خارج کی ٹھوس اور کھردری زندگی ابھارتے ہوئے اور اپنے پہلو میں حسی’ ئےعاوا میں حسی ‘جعاوا ن ن ب تاو ھعاوا ن تی تاو رد جب درمیان میں ہی کہیں فرشی نے نظموں کے اس کو ایک مسلسل نظم کے حصے شروع کیا تو وہ وہ الجھاتے جھ ۔و اس ن م ر د ر
فرشی کی ” علینہ ” صحرا کے منظر پر کھلی ‘ایلیٹ کے’ ‘خرابے کی پہلی چند سطروں میں بھی مردہ زمین’ بے حس اور سوکھی جڑوں کاذکر ہوتا ہے پتھر کا بھی جس کی کوئی صدا نہیں گونجتی. فرشی کی نظم میں مذہبی احساس جھلک دینے لگا تو ایلیٹ پھر یاد آ یا۔ “4 Quarters” والا اور ” ویسٹ لینڈ ” والا بھی.ایک میں بقول مظفر علی سید ‘خدا سے کچھ پانے کے کے سبب اس کے ہاں انکسار اور اور تھا اور دوسری کا معاملہ یہ ہے کہ میں مذہبی احساس کی قوت سے کم از کم جس طرح کی توانائی پانے کی توقع رکھتا ہوں وہ بھی خرابے کی وسعت کا حصہ ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا اس طرف دھیان ہی نہ جاتا تھا کہ فرشی اس احساس سے گوئی قوت بھی پا سکتا تھا۔
حیف کہ عجلت میں آدمی کیسے کیسے گمان باندھ بیٹھتا ہے۔ بے شک ایسے گمانوں کا کچھ نہ کچھ محرک یا جواز تو ہوتا ہی ہوگا۔ لیکن مغالطوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی ‘ٹکڑے کل کاجزو تو ہوتے ہیں’ کُل کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ یہی سبب ہے کہ ” علینہ ” نے میرے ہاں جو ٹکڑوں کی صورت تصویر بنائی تھی ‘اس نظم کی تکمیل کے ساتھ ہی تحلیل ہو گئی تحلیل ہو گئی اب ایک اجلا ‘روشن اور ماورائی پیکر میرے سامنے ہے۔ ” علینہ ” کا یہ مابعد الطبیعاتی کردار پوری نظم میں کہیں بھی اپنے عالی منصب سے سبکدوش نہیں ہوتا۔
آخر ” علینہ ” ہی کیوں؟ سلمیٰ ‘سلیمہ’ زرینہ اور سفینہ کیوں نہیں؟ جب تک ” علینہ ” مکمل صورت میں سامنے نہ آئی تھی میں کوئی عیب محسوس نہ ہوتا کہ سبع معلقہ کے ایک شاعر القیس نے اپنے قصیدے عنیزہ لقب سے معروف اپنی عم زاد اورمحبوبہ ” فاطمہ”کو ” افاطم ” کے تخاطب سے شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔ ” اے فاطمہ کج ادائیوں سے حذر کر ‘اگر تو نے مجھ سے جدا ہونے کا کر ہی لیا ہے تو اس کے لیے کوئی دلکش اپنا’ ‘۔ یہاں ” فاطمہ ” نہ ہوتی تو امراء القیس کو کوئی بھی اور عورت مل سکتی تھی ‘راسے تو ملی بھی تھیں’ تو اس کے قصیدے بدن کستوری سے کی لپٹیں اٹھانے ” ام الحویرث ” اور اس جیسی حسینہ قبیلہ طے کی شاخ بنی۔
ینہان والی ” ام الرباب ” در آئی تھیں۔ اختر شیرانی کی ” سلمیٰ ” ہو یا ن م راشد کی ” جہاں زاد ‘اور مصطفی زیدی کی’ ‘شہناز’ ‘سب ہی کا معاملہ ایک س ہے۔۔ میونخ سے ” شالا ط ” کے بجائے کوئی اور آ جاتی تو اس کی کیا ضمانت کہ اس پر مجید امجد کی نظم اس کے دل کے بدر د عورتوں کے نام لے لے کر نظمیں لکھنا اور نسوانی ناموں کو عنوان بنا لینا ہماری شعری روییا ایک عممیں سرور فرشی اگر اس روایت کو نبھاتا تو اپنی پسند اور سہولت کا کوئی بھی نام استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اب کہ جب میں اس نظم سے پوری طرح گزر چکا ہوں یہ سوال میرے لیے سے ہی لا یعنی ، غیر متعلق او ربے ہو ہ نظم اس سوال سے کہیں اوپر اٹھ کر بہت بڑے سوالات اٹھانے لگی ہے اور ” علینہ ” کا اسم ان ہےا الات جڑا تقد سوالات کے تقد سوالات کے ب تد سوال گت کے تقد سوال ت کے تقد اسوت
” علینہ ” کو سمجھنے کے لئے اسے شاعر کے نام سے تو یوں لگا جیسے ” علی ” کی تکمیلی صورت ” ع ن ” ہو گئی اب جو دیکھتا ہوں تو علی فرشِ زمیں میں آدھا دھنسا ” علی ” اور ” نہ ” کو جوڑنے کےا یلن کرت ‘ع’ و رت و ون لوعر لعوکر ل عو ر
چوبیس اجزاء (دیباچہ +۲۳ مناظر) اور ۹۹۹ مصرعوں پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے sample کے اعتبار سے ” عکُخہنا سے ” ع۔خہنہ سے ” ع۔جزطنہ س بہے ما ” سے مخا ‘سے مخا ” علینہ ” نظم میں یوں آئی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آسمانوں کی وسعت سما گئی ہے۔ اس کی برجیوں تلے زمانہ دست بستہ کھڑا ہے۔ سب اس کے نقرئی اسم کا ورد کرتے ہیں۔ اس کی تجلی بھری لاٹ کو دیکھنے کے لئے زمانے زمین بوس ہیں اور جھکی ہوئی کائناتوں کی گردشیں تھم تھم گئی ہیں۔
” علینہ”کا مابعد الطبیعیاتی وجود اور”میں”کا یہی زمینی کردار نظم کے شروع سے آخر ر تک س”’ا اا س ع م ع اپنے نام کے صوتی منبع سے پھوٹنے والے یہ دونوں اسماء نظم کے کینوس کو کائنات کی سی وسعت عطا کر دیتے ہیں۔
شاعر کی اپنی ذات”علینہ”کے ماورائی کردار سے امید کے ایک میں گندھی ہوئی ہے.اس کے دل سے”علینہ”کی کائناتوں کے اجڑے ہوئے قافلے گزرتے ہیں.یہ صلصال کے سلسلوں جڑا ہوا ہے اور گرد میںڈوبے ہوئے اس زمانے جیسا ہے جسے زرد زروں آندھیوں باہر نکلنے کا اسم بھول چکا ہے۔جہاں جہاں ” علیزے ” ا ہے ود ” م ” ورد لع کی الماری سے خوبصورت دنوں کا راز چرا لیتا ہے۔
نظم کے کردار امیجزاور سمبلز میں معجزاتی نشانیاں بن کر پذیر ہیں۔یہ نشانیاں زندگی کے ک واجالے چلی آزکا اا لی آزج ااو دو د ل ججا وح ت ت وت د ح کہیں ہونے کا کرب نہ ہونے کی معرفت سے مصافحہ ہے اور کہیں دنی دنیا سے اوپر اٹھ کر وجاود کو دائمی حیطجاوا ج م م قاوے کی معرم بقا کے ر سن م بقا کے ر سن م
” علینہ”میں کچھ اور کردار بھی وقفے وقفے طلوع ہوتے ہیں اور ایک نئی معنویت کا استعارہ بن مجموعی منظر نامے کا حصہ جاتے ہیں.ان ہی سے ایک سدھا رتھ ہے, وہی جو زمینی کشش نکل کر زمانے کے زینے روشن ہو گیا تھا۔ایک اور کردار یشودھا کا ہے جو حقیقی اور زمینی ہے۔تاہم اس راتوں میں پھیلی سرگئید شاعر نے یوںم ہے کہبب نو سیں س اس نظم میں ابن مریم کی سے کا دکھ محسوس والی بھی ہیں اور وہ دق جن کے لئے مائرن ننھی سی ٹکیا چھاتیوں کو لبالب
خمینی خمینی کی تکرار کرنے والی ہو میں اسناد منتظر نوجوان اور پنشن کی کے خالی خانوں میں ماہانہ اندراج کرانے بیوائیں, سبھی ایک ہیں, ایسا دکھ جو اس زمان و مکاں کی آلائش سے رہنے کے دھرتی کے مقدر ہوگیاہے.اسی محدود انسانی فکری کارکردگی وجہ سے مشینی سے کچلنے والے نکل آئے ہیں۔خلائی روشنیوں کے جھماکے میں سیاہ برسنے لگی ہے۔
آدم کی دائمی روایت سے منسلک ” علیزے ” نے جو روشن دنوں کے راز”علینہ”کی الماری سے چرائے تھے اسے مغربی ساحروں تباہ کن ایٹمی موت سے دیا ہے.ان بدوئوں کو جن کے پائوں تلے تیل کی رواں ہیں بے خبر ہیں کہ بازار میں زندگی بک رہی ہے۔ڈالروں کی بانجھ توانائی ایک مفلوج اور فاقہ زدہ جنم دے یا ہے ایا ا ہے ایا ن ن د ب س ر
یہ تمنا ” علینہ”کے روشن وجود سے جڑی ہوئی ہے۔
پکارنے والے ” علینہ ، علینہ ” ….. ، ” علینا ، علینا ” …… ” علی نہ ، علی نہ ” اور ایلی ، االی گ گنجلکے چیستان سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
اسی تلاش پر یہ نظم اپنی تکمیلیت کو چھولیتی ہے, یوں امیجزاور سمبلز کا ایک روشن سلسلہ لطف آگہی اور سرشاری سے ہمکنارکر برجیاں ‘نقرئی اسم, سرخ بوسے, سرداقرار’ درد کی راکھ ‘دیدار کی شربتی دھوپ’ شش دری ممٹیاں ‘سونے چاندی کی دو روٹیاں کے بگولے آب تیرتی مرگ مچھلیاں گل میں تبدیل ہونے کی تمنا خواب میں تلنا ، لیںلی ئ …
نطشے کے بقول ہر شخص اپنے اسلوب سے پہچانا .فرشی نے اپنے اسلوب کی دانشورانہ جدوجہد کے بجائے حقیقت کی تخلیق اور پر رکھ کر کودوسروں سے مختلف کر اس نے ایک پور تصور کو”علینہ”کے سارے حصوں میں یوں اجال دیا ہے کہ ہر منظر آگے آنے والے منظر کی چوکھٹ بن جاتاہے۔
رولومے نے ایک دلچسپ بات کہی تھی, دلچسپ بھی اور عجیب کا کہنا تھا کہ ” ایک کتے کو اس بات پرواہ ہوتی کہ ایک اور یا ایک اور بیت لیکن ایک. ” فرشی کے یہاں یہی تشویش ایک خوبصورت تخلیق بن گئی ہے, کچھ اس طرح کہ وقت نے بھی نئی معنویت کے گلابی بوسے لے لئے ہیں۔
مجموعی طور پر”علینہ”کا نور جس نقطے پر مرتکزہورہا ہے انسانی وجود ہے, وہی جسے سقراط نے عظیم بلندیوں گہوارہ قرار دیا تھا.کیرکے گارڈنے کے کہے سے یہ بنیادی نکتہ نکالا تھا کہ ” ساری کائنات اسی وجود انسانی پر مرتکز ہے۔اس کا عرفان حقیقت اولیٰ کا عرفان ہے۔ ” یوں”علینہ”اور ” علیزے ” کے دونوں کردار ان دو شفا ف نوں ک.
فرشی کی قوت متخیلہ کوندے کی طرح ایک ہی کئی زمینوں اور کئی زمانوں پر ابدیت کے کناروں ہے.وہ اپنے امیجز لئے اس ان کے جوازبرآمد کرکے نظم کے کینوس پر یوں بکھیر دیتا ہے کہ ایک مربوط بصری اور نظام ترتیب پا جاتا ہے.
اس طرح فن پارے کے بطن سے ایسا طلسماتی ماحول پذیر ہوتا ہے جس میں زمان, قدیم و جدید, اساطیر سائنس و تصوف, ارتقاء و فنا ‘, مادہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہو کر براہ راست ترسیل کے بجائے امیجز کے ذریعے تشکیل دے دیتے ہیں.یہی وجہ کہ اس کے ہاں کی مطلقیت اور قطعیت ہے اور نہ تصنع .یوں وہ اپنی ضع کر لیتا جس کے ذریعے انسان اور فطرت کے نامیاتی تعلق سے ہونے والے معلوم تضادات کے کنگروں سے وراء منطقے ہونے لگتے ہیں اور نظم اور ارادی شعور سے اگلی منازل کی Odyssey بن جاتی ہے۔