سید ضمیر جعفری
ایک تقریب میں پاکستان کے فوجی حکمراں ، جنرل ضیاء الحق کی فرمائش پر ضمیر جعفری نے ایک شعر سنایا۔ قریب کھڑے افراد نے شعر کی تعریف کی ، لیکن حفیظ جالندھری گویا ہوئے:
” یار ضمیر! جب تم میرے ماتحت کام کرتے تھے ، اُس وقت تو اتنے اچھے شعر نہیں کہہ پاتے تھے۔ ”
” جی ہاں! یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔ ” ضمیر جعفری نے برجستہ جواب دیا۔
٭… ٭… ٭
سید ضمیر جعفری اور ان کے چند ساتھی, فوجی افسر طبی معائنہ کروانے کے لیے ایک ملٹری اسپتال میں تو انہیں اچنبھا ہوا کہ گزرنے کے باوجود ان کے وارڈ میں نرس کا گزر نہیں ہوا. اتفاق سے جب ایک میٹرن وہاں گزری تو ضمیر نے پوچھا کہ ‘کیا بات ہے, ہم ایک ایک سے اس وارڈ میں لیکن تم نے تک کسی نرس کو اس بھیجا.’ ‘یہ سن کر میٹرن نے کہا:’ ‘میں خوب جانتی ہوں, اس وارڈ میں جتنے بھی لوگ ہیں ، وہ سب کے سب تندرست اور توانا ہیں۔ ”
٭… ٭… ٭
سید ضمیر جعفری, ایک روز عبدالعزیز خالد کے مہمان ہوئے اور لکھنے کے لیے انہوں نے خالد ان کا قلم مستعار مگر چار دفعہ کوشش کے باوجود یہ قلم سے نہ چل اس پر انہوں نے خالد صاحب کو قلم واپس کرتے ہوئے کہا: ” یہ آپ رکھ لیجیے ، اسے غالباً آسان اردو لکھنے کی پریکٹس نہیں ہے۔ ” (عبدالعزیز خالد خاصی مشکل زبان استعمال کرتے تھے)
… ٭ … ٭
ایک بار ضمیر جعفری نے ایک کالم لکھ کر حسرت کو دکھایا۔ وہ کالم چراغ حسن حسرت کو پسند نہ آیا۔ ضمیر جعفری نے کسی احتجاج کے بغیر وہ کالم پُرزے پُرزے کر ڈالا۔ اگلے روز جب چراغ حسن حسرت نے اخبار دیکھا تو ضمیر جعفری سے دریافت کیا: ” حضرت! وہ آپ کا کالم کہاں ہے؟ ”
اس پر ضمیر جعفری نے بتایا کہ انہوں نے حسرت کی ناپسندیدگی کی بنا پر اسے ضائع کردیا۔ تب میجر حسرت نے سگریٹ کا ایک طویل کش لے کر کہا: ” کیا فرق پڑتا ہے مولانا!… چھاپ دیتے… دیگر غ ‘غویات بھی تو رت بھی تو رت
… ٭ … ٭
ایک دن ضمیر جعفری ، بک کارنر پر تشریف لائے ، دیوہیکل پرسن الٹی اور بوسکی ترو تازہ شلوار ہکمیص شاوٹ گنے ،ت ور شاید حمید پوچھنے لگے:
” شاہ جی! آج کدھر کی تیاری ہے؟ ”
بولے: ” تجھے نہیں پتا آج میں گورنمنٹ گرلز کالج کے فنکشن میں مہمانِ خصوصی ہوں۔ بوڑھا ہوں تو کیا ہوا ، جانا تو خواتین کی محفل میں ہے۔ ” اور پھر اپنا یہ شعر سنادیا:
ربط ہے تازہ ہر اک چہرے ، ہر اک منظر کے ساتھ
میں بڑھاپے کو نہ آنے دوں گا کیلنڈر کے ساتھ
٭… ٭… ٭