جس طرح درس وتدریس کے پیشےکو تمام مذاہب اور معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا بالکل اسی طرح وکالت کے کی بھی انسانی سماج میں بڑی قدر و منزلت دنیا بھر میں, جہاں جہاں فلم سازی.ڈراما, فلم سازی یا کے سے کام ہوتا ہے ، وہاں معاشرے اور سوسائٹی سے ہی ماخوذ واقعات اور کرداروں کو اپنی تخلیقات کی کلید جاتا ہے۔ لالی وڈ میں اس پروفیشن سے جُڑے کرداروں پر متعدد یادگار فلمیں بنائی جس میں سے کچھ قابل ذِکر اویر گےحاص فل اویر خذکاص فل اوذکر م ہر م تر م تر م
فرسٹ لیڈی آف پاکستانی سلور اسکرین صبیحہ خانم اور سب سے پہلے سپر اسٹار کہلانے ” سنوتش کمار ” نے درپن پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی معیاری کامیاب فلم ” ساتھی”میں بالترتیب وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کے خصوصی رول پلے کیے. اور دونوں نے ہی نہایت خُوب صورت اور پُر وقار انداز سے یہ رول نبھائے تھے۔ 1963 کی رومانی نغمانی فلم ” عشق پر زور نہیں ” میں ” آغا طالش ” بہ طور وکیل صفائی نظر آئے۔ اور بہت سی رئیل اور جاندار انداز میں اپنے کردار سے انصاف آئے۔ آئے۔ ریلیز ہدایت کار طارق کی سماجی تصویر فلم ” شکوہ ” میں پاپا علاوہ الدین دی گریٹ وکیل کے روپ میں نظر آئے۔ یہ ایک غریب پرور دل رکھنے والے انسانی خدمت کے جذبے سے معمور شخص کا کردار تھا۔ جو اپنی موکلہ ” صبیحہ خانم ” کے وکیل صفائی کی حیثیت سے کے روبرو اس متاثرین انداز سے دہائل دییت فاااال دییت فاا ل دیت فا دیتے ہیںا رد رد

1964 کی ایک چونکا دینے والی فلم ” خاموش رہو ” جسے جمیل اختر نے ڈائریکٹ کیا تھا, میں گوکہ عدالت کا سین پرفارمینس کے تناظر میں اور صرف محمد علی بہت بڑی اور عظیم شخصیت طارق عزیز مرحوم کی پہلی فلم ہونے حوالے سے اس کا ہے کہ اس فلم کے عدالتی میں وہ وکیل استغاثہ کی سے محمد علی سے کرتے ہوئے نظر آئے۔ ہدایت کار حسن ‘فلم’ عدالت ” میں پاکستانی سینما کی خوب صورت ترین فن کارہ ” زیبا ” وکیل استغاثہ کی حیثیت سے اپنے کردار کی ادائیگی بھرپور اور متاثرکن لب ولہجے کے ساتھ کرتی نظر آئیں. ان کے سامنے کٹہرے میں ملزم کی حیثیت سے اسلم پرویز کھڑے ہوتے ہیں۔ وکیل استغاثہ زیبا بیگم کے تابڑ توڑ سوالات اسلم پرویز کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیتے ہیں۔ زیبا بیگم نے قدرخوب صورتی سے خاتون وکیل کے اس کردار کی ادائیگی کی۔

اردو فلموں کے ضمن میں سب سے زیادہ گولڈن جوبلی کے میکر ہدایت کار شباب کیرانوی یادگار نغمہ بار معیاری ” ‘اور’ ‘میں لیجنڈ فن کار محمد علی ایک قانون کردار میں جلوہ گر ہوئے. فلم کی آخری سین میں محمد علی اور زیبا کے وکیل حیثیت سے جب کہ منجھے فن کار طلعت حسین ان مثہمقاب ایان مثہدِمقاب ایاان مثہممقاب ایوان مممقاب اون مم قمد ل اون طور تسرد
محمد علی نے اپنی خوب صورت پرسنالٹی, جاندار آواز, شان دار ڈائیلاگ اور عمدہ ایکسپریشنز کی بدولت عدالتی اسپیل کو قدر یادگار اور مثالی بنادیا انسان اور آدمی کی ریلیزکو مناظر کے حوالے سے بہ حیثیت محمد علی کی پرفارمینس کو سب سے بڑی معیاری اور متاثرکن پر فارمنس کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ تاہم طلعت حسین نے نوآموز ہونے کے باجوود بھی اپنے میں جم کر پرفارمینس دیں۔ کار ایس اے بخاری ” ‘آنسو’ ‘میں مسعود اختر نے وکیل کا کردار ادا کہ وہ جس خاتون. قاتلہ ثابت کرنے کے لیے اس کی کردار کُشی ہوتے ماضی خاتون کے ساتھ زیادتی کے مرتکب کو پہچان لینے جعا وکیل ہین بحق عد وکیل ہین بے عد وکیل ہین بے.

وکالت کے مقدس پیشے کا نمائندہ یہ کردار مثبت اور منفی کیریکٹر کا تھا ، جو اپنی عمدہ ادائیگی کے تناظا ۔دائیگی کے تناظوظ میں آج ب بھی اداکار درپن نے جب بہ طور ہدایت کار فلم حیات عظیم اداکارہ نیر سلطانہ کو خاتون کے روپ میں پیش کے آخری اپنی پر وقار شان دار کردار نگاری کی بدولت فلم کے عدالتی مناظر کو یادگار کردیا.
شمیم آرا پروڈکشنز کی ” بھول ” میں سلور اسکرین کی سب کام یاب اور اپنے وقت کی مقباال ترین ہیہیاااال ترین ہیہی ان ” شنر ت د ل ت ود کی یہ ایک ایسی خاتون کا کردار تھا ، جو عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہے۔ شبنم کے کردار کا دل چسپ پہلو یہ تھا کہ وہ ایک ایسی عورت کی وکیل استغاثہ جاتی ہیں کہ جوان کی سو۔تید ہونے کی دوعو نونے کیت اعو ے اور ان کے شوہر میں شراکت داری کا مطالبہ کرتی ہے ، لیکن شبنم پُورے وقار اور دیانت کے اس کا مقدمہ ڑرتی ہیںا مقدمہ لڑتی ہیںا مقدمہ لتی ہیںا

شبنم نے کمال مہارت سے اپنے کردار کو ادا کیا۔ ہدایت کار رحمت علی نے بہت ہی جان دار اور اسکرپٹ پر پنجابی زبان میں ” دوطوفان ” کے ٹائٹل سے ایک عمدہ فلم بنائی, میں لالہ سدھیر ایک ذہین اور زیرک وکیل اپنی بہترین فنکارانہ صلاحیتوں کا کیا. یہ کہانی دراصل پڑوسی ملک کی فلم وشواناتھ ” سے اخذ شدہ تھی ” دوطوفان ” 1980 کی ریلیز تھی۔ 1981 میں پاکستانی باکس آفس کے کام یاب ترین فلم میکر فنی زندگی کی سب بڑی اور معیاری فلم ” قربانی ” بنائی تو اس میں عدالتی مناظر اہمیت کے تھے, مسکراہٹ والی ” دیبا خانم ” شبنم کی جانب سے وکیل استغاثہ تھیں اور ندیم کی جانب سے افضال احمد ” وکیل صفائی۔
دیبا نے اپنا کردار جس تحمل وقار اور متانت سے ادا کیا۔ اس کے لیے انہیں جتنی دادا دی جائے کم ہے۔ بے شک اس خصوصی رول کے لیے پرویز ملک کا انتخاب ” لاکھوں میں ایک ” کے مصداق تھا۔ جب کہ دوسری جانب افضال احمد نے قدرمنفی طرز فکر کے حامل وکیل کے ” جارحانہ ” کردار میں غضب کی پرفارمینس دی ی اور بھرپور پذیرائی کے مستحق ٹھہرے۔