شکیل فاروقی
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان پرانی عمارت ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے. دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرن تھا ویسے بھی دانش صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے حیات سے کم نہ تھا, جس دراز سے بڑی شدت ساتھ انتظار تھا, لوگوں میں نہیں تھے نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا.
حسب وعدہ صبح وقت مقررہ پرٹھیک دس بجے احسان دانشؔ نے ہمارے کمرے قدم رکھا تو ہمارے احساساات ہاور جذبات ستیا نات ستیا جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے ہمیشہ کے لیے محفوظ کرکے رکھ لے کیےوں می وں میں اا وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔
ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا, سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک Home made انسان تھے, جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ابتدائی بے حد سخت اور کٹھن تھے, جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور Inkman کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری ، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔
وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور ہیلپر بھی خدمات انجام دیں اور کے آخری حصے میںاااا م عکتب ذیع بع اس کج گلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم گریز کیا۔ان کا اصل نام قاضی احسان احق می حمیںا ان ن رت د وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک سا ٹکڑا تھا ، ججو خااندان سن ر ل ل
ان کا آبائی وطن باغت ، ضلع میرٹھ تھا لیکن جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھی۔ گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ اتفاق سے ہماری جائے بھی مظفر نگر کا ہی قصبہ ہے جس کا بگھرہ) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جید علمائے کرام کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔
احسان دانش کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن کی وفات کے بعد کے والد انھیں کر کاندھلہ دانش حد تک تھا لیکن خاندانی غربت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے.
اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا پھر یہیں کے ہوکر گئے.یہاں انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر نے ہمت نہیں مطالعے کا شوق اور شاعری کا انھیں تھا والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا میں بعض شاعر کلام پمفلٹ کر کرتے. فروخت تھے.
حضرت بومؔ میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام والے ایک راج مس۔تری کے ہیلپر کی جبلا لر کی ججب من گئی توت سر دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا وہ لائبریری میں صرف کردیا کرتے یتھے۔بے شک ﷲا تن الوحد کیا تن لیٰت تسی آخرکار وہ دن بھی آیا جب پنجاب ایم اے کے پیپرز کے ممتحن بنے اور چیف ایگزامنر کی حیثیت اپنے معاوپ کے شیا ن ب
احسان دانش نے ثابت کردیا کہ ” ہمت مرداں مدد خدا ” یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ” خوش نصیبی ایھیس کد د ا بی ایھیب کد ۔ا بس ایب ککد ا سا ب تضر احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔
اس ملازمت نے انھیں آرام سے لکھنے مہیا کردی کے نتیجے میں ان کی شاعری و جرائد میں شایع عوام و ہونا شروع ہوگئی میں جس میں ان بہ روز اضافہ کردیا.ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہوگئی نے کی شاعری سے متاثر انھیں گورنر ہاؤس ملازمت دلوائی چھوڑدی ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بٹا خیپپاا بٹا رباد کہہ دیاب رب
روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کردیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی موڑ کے نتیجے وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح نظام سے متنفر ہاوکر کا رخ کیاپا من ا رخ ھتھےا مگن ن تر ہیںر 0
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ وسیع المطالعہ دانشور اسکالر بھی تھے, جنھوں نے اردو اور لغات کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام ہیں جو ” حضر عروض ”, ” تذکیر و تانیث ” ” لغت الاصلاح ”, ” اردو مترادفات ” اور ” دستور اردو ” جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔
انھوں نے بے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش کیا جاسکتا, ان کی ” ‘دانش’ ‘بھی ان کا بہت بڑا کارنامہ اس بہت سی کتابیں بھی ہیں کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے, ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات میں انھیں ” نشان امتیاز ” اور ” ستارۂ امتیازب ” کے اید اید اھید