ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
ارشاد ربانی ہے: کیا یہ (یہود) لوگوں (سے ان نعمتوں) پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل عطا ہیں, سو واقعی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ہم نے انہیں بڑی سلطنت بخشی۔ پس ان میں سے کوئی تو اس پر ایمان لے اور ان میں سے کسی نے روگردانی کی ، اور (روگردانی کآگنے وزخ کیرنے وزخ ل آیات میں اللہ تبارک وتعالی نے یہودیوں کی ایک خاص خصلت اور علامت یہ بیان فرمائی ہے اہل ایمان سے حسد کرتے ہیں ان نعمتوں کی وجہ سے کرتے ہیں جو اللہ اپنے فضل مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں, حسد لیکن مسلمانوں نے اسے آپس کے معاملات میںاپنا لیا ، یہی وجہ ہے کہ آج معاشرہ جن روحانی بیماریوں کا شکار ہے ، ان میں سے ایک اہم ترین حسد کی بیماری ہے۔ یہ ایسی بری عادت ہے جس سے انسان کا متاثر ہوتا ہی ہے, لیکن اس کہیں زیادہ اس کا ایمان برباد ہوجاتاہے.حسدمعاشرے وکینہ, نفرت وعدوات, تعویذ گنڈا, جادو ٹونا اور اس جیسے دیگر مکروہ اعمال کرنے کرانے کا دروازہ کھل جاتا ہے اورحسد نام ہے نعمت سے نعمتوں کے کی تمنا کرنے تمنا کرتا ہے کہ چھن کر مجھے مل جائیں۔
حسد کا مطلب ہے”کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور کرنا کہ اس کی نعمت اوہے خوش حالی دوکیر ہ ووا ل دوکیر ‘ود مل جوحر۔’ ‘وکد مل جوکیر۔’ ‘ وہ یہ نہ برداشت کرسکے کہ اللہ نے کسی کو مال ، علم ، دین ، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حااد کرنے وجلا) اقا رنے وجلد اکےا اس کی کیفیت کا اظہار کبھی اس کی باتوں ہے اور کبھی اس کا عمل جذبات و احساسات کی عکاسی ہے.حسد کی کیفیت جب کے دل تک رہے, نہیں بلکہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبال بنا وہ ہی بڑا دشمن بن بیٹھتاہے, جلن کو ظاہر تو یہی و سماء. ہمیں سکھائی ہے: ” ومن شر حاسد اذا حسد ” میں اللہ سے پناہ مانگتا والے کے شر سے جب حسد کرنے لگے ” (سورۃ الفلق) اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ ” حاسد کے شر سے پناہ مانگو. ” بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ”حاسد کے شر سے پناہ, جب وہ حسد کرنے لگے”کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے پہلے ہی پیش گوئی فرمادی تھی کہ یہ امت حسد اور کی بیماریوں میں مبتلا زبیر بن عوام روایت ہے کہ فرمایا ” تم میں گزشتہ اقوام کی بیماریاں داخل گی, جن میں سے حسد اور بغض دینے والی ہوں بال نہیں ، دین کردینے والی ہے ، اس اقدس ہے! تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤگے ، جب مومن نہ بن جاؤ ، اور وقت تک مومن نہیں بگین جب تک کہ اؤگے ، محابت نہ میںت تم وہ یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرو ” (جامع ترمذی)
رسول اکرم ﷺ نے اسی حسد کی تباہ کاریوں کی متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا, جیسا کہ الترغیب بیان کیا گیا ہے کہ ‘, بکریوں کو اتنا حرص اور حسد مسلمان کے دین کو برباد کرنے والا ہے اور حسد نیکیوں کو طرح جاتا ہے جس طرح کو کھا جاتی ہے ”۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس بچنے کی خصوصی وصیت فرمائی۔
حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشادفرمایا, ” ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ نہ غیبت کرو اور کے بندے کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے. (صحیح بخاری)
انسان کا نفس بنیادی طورپردوسروں سے وبرتر وہ کسی بہتر حال و مقام پر ہے تو یہ چیز گراں گزرتی ہے, وہ چاہتا جائے, تاکہ ہم دونوں ہوجائیں.یہ حسد کی بنیادی وجہ ہے.حسد عموما ہمسر اور ہم پلہ افراد میںہوتی ہے. مثلاً بہن بھائیوں میں ، دوستوں میں ، افسران میں ، تاجر تاجر سے کرے گا ، طالب عف اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے.حاسد اللہ کی تقسیم راضی نہیں ہوتا, وہ سمجھتا ہے نعمت جو دوسرے کو کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرارپایا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا بھی نہیں, کیونکہ حاسد کا کے فیصلے کونہیں بدل سکتا.ہر انسان کچھ اور کچھ خامیوں کامجموعہ ہے. اپنے کردار و مزاج کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و سرگرمی ہے, لیکن اگر اپنی کی اصلاح کی بجائے صلاحیتوں اور جلنا کڑھنا شروع کردے احساس کمتری میںمبتلا ہوجاتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرلیتا ہے.اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں اس کی نظر نہیں جاتی۔وہ ہر وقت دوسروں پر نظر رکھتا ہے۔ اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے اور حاسد بن جاتا ہے۔حسد ایک ایسی ہے جو آغاز کائنات سے چلی آرہی ہے۔ح حضرت یوسفؑ اپنی بہترین عادات ، اعلیٰ کردار اور معصوم وبے مثال حُسن کی وجہ سے اپانے والد حضکھاا اع والد حضاا ع ونبد کیت رت یعقنبؑ کیت بھائیوں کو اپنے والد کی یوسف سے بے پناہ محبت گزرتی تھی اور انہوں نے یوسف کے کا ارادہ کیا جو میں بڑے بھائی بدل دیا, کو باوجود نہ تو وہ والد کی آنکھ کا تارا بن سکے, نہ یوسف کے مقام کو پہنچ سکے. ان کا کچھ نہ بگاڑسکے ، بلکہ اللہ نے انہی اسباب سے حضرت یوسف ؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔
یہود ونصاری اسلام, اہل اسلام, نبی اکرم ﷺ سے بغض وحسد رکھتے اور ان کا یہ خبث باطن تعالی نے قرآن میں کئی بیان فرمایا ہے.ارشاد ربانی ہے. ” اور جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصے کے تم پراپنی انگلیاں کاٹتے ہیں. آپ کہو کہ تم اپنے غصے میں جل مرو۔ ” (سورۂ آل عمران) اسی حسد کی وجہ سے یہود نے نابی اکرم ﷺ پے او ن لن حمدو ناتانہ ہمد قرآن کو وحی ماننے سے انکار کیا, دین اسلام پراعتراضات کئے, شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اسلام کے ساتھ ظالمانہ روا کتاب آج تک اس حسد میں جل ہیں اورجلتے رہیں فضیلت اور برتری کا خود ساختہ زعم انہیں لے ڈوبا ہے.
حسد مفرد بیماری نہیں ہے, بلکہ بہت سی روحانی کر حسد کی شکل میں ظاہر ہوتی لہذا اس کے نقصانات بہت سارے ہیں اور یہ دنیا و آخرت, شخصیت اور ہمارے دل میں لوگوں کے لیے حسد کے جذبات کے بجائے رشک کے جذبات پیدا فرمائے. ( آمین)