دہلی میں ایک جیب کترا تھا ، جس کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی دودھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتخر پکد گھن گھس کسر شیشےکید گھن گھس کسر شیشےکید گھن گھس تر کید گھن گھس تر بس جہاں اس کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی۔ ایک صاحب نے خواجہ حسن نظامی سے شکایت کی۔ ” دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہوگئے ہیں ، کسی کی مجال نہیں ہوئی ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی ۔دیکھ ‘ل
خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز سے ان صاحب کا سامنا کرایا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا:
” خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔ چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وچ بھی گنرتی کے کے اب آپ ہی بتائیے کہ کون جعلی سکوں پر اپنی نیت خراب کرے گا۔ ”
… ٭ … ٭
ایک انگریز نے خواجہ حسن نظامی سے پوچھا:
” سارے انگریزوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے ، لیکن پتہ نہیں کیوں سارے ہندوستانیوں کا رنگ ایک سا نہیں ہوتا۔ ”
خواجہ حسن نظامی نے جواب دیا: ” گھوڑوں کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ، لیکن سارے گدھوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے۔ ”
… ٭ … ٭
خواجہ حسن نظامی بعض اوقات بڑی دور کی کوڑی بہادر سپرو کے متعلق الہ آباد ایک ادبی اجتماع میں آپ نے فرمایا: ” آپ یوں تو سرتیج ہیں, اردو کے سرتاج ہیں نہیں اپنا سپر سمجھتی ہے. ” خواجہ صاحب کی تشریح صرف صناعی نہیں ، واقعہ بھی ہے۔
٭… ٭… ٭
قیام پاکستان کے بعدخواجہ حسن نظامی کی معاشی حالت بہت کمزور ہوگئی۔ دوست احباب بھی وداع ہو کر پاکستان پہنچ گئے۔ دوست کم ، دشمن زیادہ ہوگئے۔ ہر قسم کی مصیبتیں ان پر نازل ہوگئیں ، لیکن پھر بھی ان سے ” سلطان جی کا آستانہ ” نہ چھوٹا۔ اکبر الہٰ آبادی نے اس موقع پر یہ شعر کہا:
حضرت ابوہریرہ سے بلّی نہ چھٹ سکی
خواجہ حسن نظامی سے دلّی نہ چھٹ سکی
… ٭ … ٭