شانِ رسالتﷺ کا تحفظ اور اُس کے تقاضے

پروفیسر حافظ حسن عامر

خاتم المرسلین, سیدالعالمین, صاحب قاب قوسین, جناب طہ و یسین, حامل مقام رسول کریم, رؤف ورحیم ﷺکا نام اور اسم مکرم (ﷺ) ہے عربی لغت میں اس لفظ کے معنی ہیں, بہت زیادہ کیا گیا.ستودہ صفات اوصاف محمودہ سے متصف نہایت عمدہ خصائل اور بلندترین و شمائل سے منور ذات بابرکات, یعنی جناب اللہ ﷺ.قرآن مجید میں حق تعالی آپﷺ کی نبوت ورسالت کی دیتے ہوئے ارشاد فر ما یا: ” اللہ (بزرگ و بر تر) شہادت کے لئے کافی ہے (یقینا ) محمد ﷺ (ہی) اللہ کے رسولِ بر حق ہیں ”۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر ۲۹)

سرکاردوعالمﷺ کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانہ ہے ، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتاہے ، وہیں آپؐ کانامِ متاا ک آانامِ متارک آانامِ متارک آ انامِ متارک کلمۂ طیّبہ آپؐ کے شرف کی دلیل ہے ، کلمہ شہادت آپؐ کی کاثبوت ہے مساجد کے مینار آپ ؐ کی قدرو منزلت کا نشان ہیں۔ اذان آپؐ کی شان وعظمت کااعلان ہے ، تکبیر آپؐ کے علو کی علامت ہے ، نمازآپؐ کی جلالتِ ہے زا، آپؐ کی د د

رسالت مآبﷺ کی عظمت سرکار ختمی مرتبت کی توقیرمقام مصطفیﷺ رفعت و شان کیا ہے, کلام اللہ سے پوچھیے ارشاد رب جلیل ہے: ” (اے محبوب) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا. ” (سورۃالانشراح آیت نمبر 4)

چناںچہ محبوب کبریا سید الکونینﷺ کی شان اقدس میں (نعوذ باللہ) ادنی سی ایذا رسانی یا گستاخی قہر الہی, رسوا عذاب, ابدی لعنت اور دائمی پھٹکار موجب ہے, ہے رب قدیر ہے: ” بلا شبہ لوگ. اور اس کے رسولﷺ کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی سے پھٹکاۃ ہے ااور اآیکے یے لیے اااوا کےن کے یے یے

رحمت مجسم ﷺ کا چچا ابولہب کافر و مشرک اور حق تھا.اس کا اصل نام ” عبد العزی ” تھا, وہ لات و منات عزی کا پیرو تھا, اپنے کی آگ جیسی سرخی کی بناء پر ابو لہب کے سے پکارا جاتا تھا, انجام کے اعتبار سے اس بد شعلوں والی آگ کا ایندھن بننا تھا رسالت میں گستاخی کرنا عالم کو ایذا پہنچانا کا مذاق بد بخت کا شیوہ تھا.قرآن عظیم نا صرف اس کا نام لے کر انتہائی سخت الفاظ میں اس مذمت کرتا ہے, بلکہ اس لعین کو ابدی لعنت اور دائمی ذلت کا مستحق قرار دیتا ہے۔ سورۃ اللہب میں ارشاد خداوندی ہے ” ٹوٹ گئے ابی لہب اور نامراد ہوگیاوہ, اس کا مال جو کچھ اس نے کما تھا, کچھ کا م آیا, میں ڈالا جائے گا, اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی لگائی بجھائی کرنے والی, اس کی گردن میں (کھجور کی چھال سے بنی ہوئی) مونجھ کی رسّی ہوگی۔

انجام کار اس لعین کا بدترین حشر ہوا۔ طاعون جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوا اور سسک سسک کر واصلِ جہنّم ہوگیا۔ ابولہب کے بیٹے عتبہ نے بھی سورۃ النّجم سن کررحمتِ عالم ﷺ کا مذاق اڑایا۔ شانِ اقدس میں (نعوذباللہ) گستاخی کی تو دنیا میں ہی اس بد بخت کو دردناک سزا ملی اویل ایک دّیطیاد س ا داود س س بد ب رد

شاتمین یعنی گستاخان رسول, پر حق تعالی شانہ, کی راضی, غیظ و غضب اور قہر و کا اندازہ تو سورۃ القلم ان دس آیات سے لگایا, جن میں ولید بن مغیرہ کی صفات باری تعالی ہے ” عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیںگے کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلاہے۔ تمہارا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں۔ لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دبائو میں ہر گز نہ آئو ، یہ تو چاہتے ہیں کچھ تم مداہنت کرو تو وہ بھی مداہنت کریں۔ ہرگز نہ دبو ، کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والاہے۔ بے وقعت آدمی ہے, طعنے دیتاہے, چغلیاں, بھلائی سے روکتا ہے, و زیادتی میں حدسے گزرجانے والاہے سخت بد اعمال, سب عیوب کے ساتھ بداصل بناء پر کہ وہ بہت مال و رکھتا ہے, ہماری آیات جب اسے سنائی جاتی ہیں تو کہ یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائیںگے (ناک کو سونڈ کہاگیاہے اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل وتحقیرہے) یعنی دنیا وآخرت میں اسے ایسا ذلیل و خوار کریںگے کہ ابد تک یہ عاراس کا پیچھا نہ چھوڑےگا. (سورۃ القلم آیت ۵ ، تا ۱۶)

سورۃ القلم کی آیات مذکورہ بالا سے واضح ہواکہ شاتمین شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی افراد جن صفات ذمیمہ حامل ہوتے ہیں, یہ اخلاقی برائیاں ہیں, جن سے بدامنی اور فساد کا شکارہوجاتاہے.

قرآن مجید کی روشنی میں ایک شاتم وگستاخ رسول کی کا نفسیاتی تجزیہ کرکے اس کی تحلیل نفسی (ذہنی محرکات) کی جائے تو درج ذیل اخلاقی ابھر کر سامنے ہیں, جن کا بطور خاص کلام گیا, بلکہ ایک ایک کر کے ان کی نشاندہی بھی کی گئی, مثلا تصریح کی گئی ہے کہ وہ: .مکذب … انتہائی جھوٹا.حلاف … جھوٹی قسمیں کھانے والا.مھین … نہایت حقیر و ذلیل بے وقعت شخص.ھماز … بہت طعنہ زن, عیب گو.مشآئ بنمیم … نہایت چغل خور, چغلیاں کھانے والا۔مَنَّاعٍ للّخَیْر… ہر نیک کام سے روکنے کی بھرپور کوشش کرنے والا ۔مُعتادِِ… ححسے تجاوز کدسے تجاوز کرن وتن د اَثِیْمٌ… نہایت گناہ گار ، گناہ پر گناہ کرنے والا۔عُتُل… جھگڑالو ، بد ُخلق اور سفاک ، ظالم۔زِنِیْم ن مد لد لد ن مد لور

بارگاہ رب العالمین سے شاتمین اور گستاخان رسول کو آئینہ حقیقت نما عطاکردیا گیا ہے جب بھی کوئی بدبخت, محبوب کی میں گستاخی کا مکار جھوٹا, بے وقعت, طعنہ باز, چغل خور, نیکی سے دور, حد سے تجاوزکرنے والا, بد خلق, ظالم ، سفّاک ، بداصل اور بد نسل ہے۔ بھلا اس کی ہفوات وبکواس بھی کوئی قابل اعتنا ہرگز نہیں, رب ذوالجلال کا اپنے مکرم سے وعدہ کہ:. ” بلا شبہ (اے رسول) ہم آپ کی طرف سے ان استہزا ” (سورۃ الحجرآیت 95)

یہ وعدۂ حق فرمانے کے بعد کہ گستاخی کرنے والوں محاسبہ کے لئے ہم کافی ہیں, نبی کو باگاہ الہی سے تسلی تشفی کے کلمات عطا جا رہے ہیں, چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ” (اے رسول مکرم) ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں آپؐ پر بناتے ہیں ، اُن سے آپ کے دل کو سخت کوفت (اوراذیت) ہوتی ہے ”۔ (سورۃ الحجرآیت ۹۷)

ِجلیل کی طرف سے ﷺ سے فرمایا جاتا ہے کہ اے حبیبِ مکرمﷺ! آپ تو بس اپنے رب کی تحمید, تعریف, تسبیح و میں رہیے اور اپنے رب بارگاہ نیاز میں عبودیت بجا لاتے رہیے .ارشاد باری ہے: ” پس آپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہیے اور بجالا نے والوں میں شامل رہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیے ، یہاں کہ آپؐ پر وہ چیز آجائے جس کا آنا یقینی ہے ” (سورۂ حجر آیت ۹۸،۹۹)

بارگاہِ ربّ العزت میں مقام مصطفیٰ ﷺ کیاہے؟ شانِ رسالت میں قرینۂ ادب کس کو کہتے ہیں؟ بارگاہِ نبویؐ میں احترام کے اصو ل وضوابط کیا ہیں؟ ذرا سورۃ الحجرات کا مطالعہ کیجیے, ارشادہوتاہے: ” اے ایمان والو, اللہ اور اس کے رسولﷺ (کے حکم) سے تم سبقت نہ کیا اور اللہ سے ڈرتے رہو, بلاشبہ اللہ سننے والا اوربخوبی جاننے والا ہے ”. (سورۃ الحجرات آیت ۱)

بارگاہِ رحمتِ عالم ﷺمیں تکلم وتخاطب کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا: ” اے ایما ن والو! (رسول محترم ﷺ) کو اپنی طرف متوجہ کر نا پاہو تو لفظ ” راعنا ” (ہماری رعایت کیجیے) نہ کہا کرو, بلکہ ” انظرنا ” (ہم پر نظر کرم فرمایئے کہا کرو) اور جو کچھ ارشادفرمائیں اسے دل لگاکر بغور سناکرو ”۔ (سورۃ البقرہ آیت ۱۰۴)

مزید بر آں محفل نبوی میں, چپ کے کے باتیں کرنا, دین حق اڑانا, خدمت نبوی حاضر ہوکر سلام و تحیہ پیش کرنے لفظ ” سلام ” ہی کو تبدیل کرکے اللہ یہود منافقین کی طرح گستاخانہ کلمات زبان سے نکالنا, اللہ گناہ ہے جس پر نار جہنم دائمی سزا اور سنائی گئی ہے, ارشادبا ری تعالی ہے ان لوگوں کو نہیں دیکھا, جنہیں سرگوشی سےمنع کیا گیا تھا, پھربھی وہی کام لگے, جن سے انہیں منع کیا گناہ, ظلم اور رسول اللہ کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے اورآپ ﷺ سےایسے الفاظ سے (نعوذباللہ) سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے آپ ﷺ کو سلام نہیں کیا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں (اگر واقعی یہ رسول سچے ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں اللہ ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا. یقیناً ان کے لیے دوزخ کافی ہے جس میں وہ ضرورداخل ہوںگے اور (یہ بہت ہی) برا ٹھکانہ ہے ”۔ (سورۃالمجادلہ آیت ۸)

قرآنِ عظیم کی مذکورہ بالا آیات واضح جلِ کونین ؐکی بارگاہِ ادب میں معمولی سے خطا سی گستاخی وآہنگ سے. اعضاء و سکنات سے ہو ، باری تعالیٰ کے نزدیک ناقابلِ تلافی جرم اور ابدی نقصان و خسران کا پیش خیمہ ہے۔

محبوب رب العالمین کی جناب میں سرگوشی, جنبش لب, اشارۂ ابرو, آنکھوں ذریعے اس طرح رمز و کنایہ کرنا جس سے کسی گستاخی کا پہلو نکلتا ہو, ہر گز ہوشیار ہو جاؤکہ یہ مقام, مقام ادب اور جائے حرمت ہے, یہاں تو سانس بھی سنبھل کر ہے ، کیوں کہ یہ وہ بارگاہ ِمحترم ہے ، سے نازک جیسے اولیاء و اتقیاء پاسِ ادب اور کماالِ ادب ضور کماوکا تا کی بقولِ شاعرؔ

ادب گاہیست زیرِآسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدوبایزیدایں جا




Supply hyperlink

About admin

Check Also

شہیدِ منبرومحراب سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ

محمد عبدالمتعالی نعمان امیر المومنین, خلیفہ دوم, مراد پیمبر, عشرۂ مبشرہ کے بزم فاروق اعظم, …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *