تیمر کے ساحلی جنگلات میں آباد تیمر کمیونٹی

عامر محبوب

تیمر (mangroves) کے جنگلات میں بسنے والے لوگ ” تیمر کمیونٹی ” کے نام سے عالمی پہچان رکھتےہیں۔ دلدلی ساحلی علاقوں میں پروان چڑھنے والے تیمرکے جنگلات سندھ سمیت دنیا بھر کے ان 92 ممالک میں پائے جاتے ہیں, جہاں دریا کا میٹھا, تازہ سمندر کے شور زدہ پانی میں گر جاتا ہے. تیمر کے درخت عموما ان ہی خطوں میں نمو جہاں دریا کےپانی کے ساتھ بہہ آئی ہوئی مٹی سمندرھ کے ہم آغوش ہوجانے بعد ساحلوں پر جاتی ہے اور سمندر اپنی تیز نم کہیں کہیں پانی کم گہرائی کی صورت میں ہمیشہ ہے, اسی لیے میٹھے اور کھارے کے سنگم پر واقع مستقل رہنے والے یہ دلدلی کے گھنے سے لگتے ہیں.ماہرین کہ میں جانے والا صرف ایک درخت نہیں بلکہ سمندر اور زمین کے یہ دلدلی جنگلات کا ایسا علاقہ ہے, جہاں منفرد انسانی تہذیبوں نے جنم لیا اور منفرد ثقافتیں پروان چڑھیں.

تیمر کے جنگلات پاکستان کے جنوب میں سندھ اور بلوچستان کی تقریباً 1046 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی پر محیط ہیں۔ تیمر کے ان ساحلی جنگلات کو مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائشی نرسری کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت تیمر کے جنگلات کا رقبہ دو ساٹھ ہزار ہیکٹر کے لگ بھگ تھا, جو اب سمٹ تقریبا 86 ہزار ہیکٹر باقی رہ گیا ہے.سندھ ساحلی پٹی پر تیمر کمیونٹی سب سے بڑی آبادی ہے. یہ لوگ دیہات نما بستیوں میں چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہتےہیں۔ کراچی میں تیمر کمیونٹی کی ساحلی بستیاں ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹھ وغیرہ میں ہیں ، ج ص ھی

کیٹی بندر ، شاہ بندر سمیت زیریں سندھ میں ڈیلٹا ئی علاقوں میں بھی ان کی آبادی بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ زیریں سندھ کی ان اضلاع میں ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقے بھی شامل ہیں۔تیمر کمیونٹی کا بنیادی ذریعیہ مع اش مہی گیر تیمر کے جنگلات ان لوگوں کا ذریعہ معاش بننے خوراک کی افزائش کے لیے ایک نرسری کا درجہ رکھتی ہے, دوسری طرف ان کی تیاریوں کے لکڑی, کے لیے کی کا ذریعہ ہے, مگر اب حالات تیزی بدل میں پانی کمی وجہ سے کوٹری بیراج سے علاقوں میں پانی کا بند ہوچکا ہے ، کی وجہ تیز ہوچکی ہے ، سندھ نے سمندر سے جو زمین چھینی تھی وہ سہےمندر واپاس حا صل کرتا حا صل کرتا یہی وجہ ہے کہ تیمر کے جنگلات کا رقبہ بھی تیزی سے کم ہورہا ہے۔

تیمر کے ساحلی جنگلات میں آباد تیمر کمیونٹی

یہ تباہی صرف جنگلات کی ہی نہیں بلکہ ذریعہ معاش اور سب سے بڑھ کر وہاں صدیوں سے تیمر کمیونٹی کی تہذیب ثقافت کی تباہی اس جنگل, دہانے پر پہنچ گئی ہے.سندھ کی ساحلی پٹی کم و بیش 330 کلو میٹر طویل ہے, یہ زیریں سندھ کا حصہ ہے ، جو کراچی لے کر ” رن آف کچھ ” میں بھارتی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ گرچہ تیمر کے جنگلات میں آباد یہ کمیونٹی مختلف قومیتوں ہے, لیکن ان پر ایک رنگ غالب رہا اور وہ ہے ” سندھ ڈیلٹا, سمندر اور تیمر کا ”, مثلا سندھ میں کی اکثریت مسلمان ہے اور زیریں سندھ میں بولی جانے والی سندھی زبان کو زیریں سندھ تلفظ کے ساتھ ساتھ اپنے ہی میں ادا کرتی ہے.گرچہ نسلی سے یہ مختلف قومیتوں رکھتے اور میں قدر مشترک کو گیر کہتے, بلکہ وہ احساس برتری سے ماہی گیر طبقے درجہ بندی رکھتے ہیں اور جھیلوں دریائی مچھیروں کو وہ خود کم تر سمجھتےہیں.دل چسپ ہے کہ طرف وہ خود سے سمجھتے, لیکن دوسری طرف کراچی میں ابراہیم سے لے بھارتی سمندری حدود تک جب تیمر کمیونٹی کوئی بھی مچھیرا جال سمیٹ اور کشتی کھینچتے ہوئے سمندر کا رخ ہے, توکہتا ہے ” دریا میں جارہا ہوں. ” ایک بھی مچھیرا سمندر کو سمندر نہیں کہتا ، بلکہ بحیرہ عرب کی موجوں سے لڑتے ہوئے بھی مچھیرا ، ہےمیشہ ا سے دتا ہی ہی

تیمر کے ساحلی جنگلات میں آباد تیمر کمیونٹی

اس کے سمندر کو دریا کہنے کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس کا تعلق دریائے سندھ اور ڈیلٹا کی اثر انگیزی سے ہے۔ موٹے موٹے خدوخال والے تیمر کمیونٹی کے باشندوں کہاجاتا کے آبائو اجداد سترہویں اور اٹھارویں عیسوی میں افریقی سے بنائے گئے بعد ازاں انہیں سے یہاں لایا گیا, یہ ہی غلاموں کی اولادیں ہیں, جو صرف دو تین صدیوں کے دوران کے رنگ میں اتنا رنگ چکے ہیں ان میں اور مقامیوں صرف اور تلفظ کا فرق ہے ، مگر ثقافت۔

اسی طرح جیوانی کے ساحلوں پر نیلی آنکھوں والے وہ لوگ بھی تیمر کمیونٹی اور قدرتی وسائل سے ککوں و الوں لم روایت ہے کہ یہ نیلی آنکھوں والے بحری جہازوں پر اور قزاقی کرنے والے پرتگالیوں کی نسل ہیں, جو تو اپنے وطن سے, مگر جب ان جہاز جیوانی کے ہوکر رہ گئے, مگر کل (ماضی میں) ان کے آباؤ اجداد کا جورشتہ سمندر سے قائم تھا ، ان کی اولادآج بھی اسی رشتے کونبھارہی ہے۔ آج اگر ان جیوانی کے ساحلی مچھیروں کو یہ کہہ کہ وہ بلوچ نہیں یا کہ کی نسل ہیں ، تو ماقن جاتے ہیں ا،ل یکل




Supply hyperlink

About admin

Check Also

” گھنٹہ گھر ” فیصل آباد کی پہچان

فیصل آباد کاگھنٹہ گھر ، پاکستان میں ایک ایسا گھنٹہ گھر ہے جو برطانوی راج …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *