سب مانتے ہیں کہ ایک لکھنے کا تخیل بھرا ہوگا, اتنا ہی وہ انسانی کے قریب ترین صورت حال گرفت میں لینے پر ہو گااور پڑھنے بہ قول غالب یہ محسوس کرے ” میں نے یہ جانا کہ گویا بھی میرے دل میں ہے ”. متخیلہ کے عقب میں مطالعہ اور مشاہدہ بھی کام کر ہوتاہے ۔افسانہ لکھتے ہوئے یہ ضروری نہیں کہ م وے اآیا نہیں مو ہی جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہونا چاہیے تو کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے طبعی صورت میں ہوتا نظر ہو بلکہ احساس پر اسے ہوت.
قاضی افضال حسین کے ایک مضمون میں, میں نے پڑھا کہ جب عصمت چغتائی کا افسانہ ” لحاف ” پہلی بار چھپا تو منٹو یہ افسانہ پڑھا اور جملے پر معترض ہوئے کہ کہلوایا گیا ہے جو حقیقت ہے. حسب عادت یہ اعتراض عصمت چغتائی نے رد کر دیا مگر افسانہ آخری شکل میں چھپاتو اسے عصمت بدل لیا تھا.بہ قول افضال بدلا ہوا اختتام راوی کی عمر کی سے بالکل ٹھیک اب آپ دیکھیں کہ عصمت بچی تھی نہ منٹو اس بچی جیسا دونوں کا تخیل اتنا ہرابھرا تھا, کہ وہ ایک نفسیات کے مطابق صورت حال کو آنک عصمت نے ابتدائی طور پر حقیقت کو سمجھنے میں اگر کھائی تو منٹو کے معترض ہونے پر, پر پھر سے غور کیا اور بچی کی نفسیات کو اپنے جملے میں قائم لیا تھا.
یادرہے ایک افسانہ نگار کو زبان کا تخیلی اور حساس ترین تخلیقی اظہار کرنا ہوتا ہے اور اسی وہ اپنے قاری کی کو دے کر ایک حقیقت کا تماشا اس سامنے سجا دیتا میں نے ایک جگہ لکھا تھا میں اور ہے, تو اس کامطلب بھی ہرا بھرا تخیل گا اتنا ہماری پر. ایک ڈالتی ہے۔جی ، حقیقت نہیںحقیقت کا تماشا۔ یہاں مجھے غالب کی ایک معروف غزل کا مطلع یاد آگیا ہے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
جی, یہ دنیا, یہ زندگی, وہ جو ہم دیکھتے اور وہ جو ہم دیکھنا چاہتے پھر نہیں دیکھنا چاہتے دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں, تماشاہی تو ہے اور ہم اس تماشے میں طرح ایک افسانہ نگار کے لیے حقیقت کا تصور (چاہے وہ دیکھی بھالی ہو یا ان دیکھی) ، اس حقیقت سے انسانی سطح پر وابستہ ہونے کے بعد ہی قائم ہوتا ہے۔ محض بے جان پتلی ہو کر نہیں ، ایک جیتا جاگتا زندہ وجود مگر پتلی۔ ” اسیر ذہن ” میں محمد سلیم الرحمن نے جون میک مرے کا ایک مضمون شامل کیا ” حقیقت اور آزادی ”, اس میں مصنف نے تھا کہ ہمارے رویوں براہ معین زندگی میں رکھنے والی حقیقت ہوتی ہے نہ حقیقی چیزیں, بلکہ زندگی کا چیزیں متعین کرتی ہیں جنہیں ہم حقیقت یا حقیقی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
ایک فکشن لکھنے والا یہیں سے حقیقت لیتا زندگی کا رُخ متعین کیا واقعہ ہے اور تخلیقی سطح کو بھی. رُخ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔