Warning: base64_decode() has been disabled for security reasons in /home/tweenapp/urduvisitor.com/wp-content/plugins/duplicator-pro/classes/class.crypt.custom.php on line 25

Warning: base64_decode() has been disabled for security reasons in /home/tweenapp/urduvisitor.com/wp-content/plugins/google-site-kit/includes/Core/Storage/Data_Encryption.php on line 90

Warning: base64_decode() has been disabled for security reasons in /home/tweenapp/urduvisitor.com/wp-content/plugins/google-site-kit/includes/Core/Storage/Data_Encryption.php on line 90

Warning: base64_decode() has been disabled for security reasons in /home/tweenapp/urduvisitor.com/wp-content/plugins/google-site-kit/includes/Core/Storage/Data_Encryption.php on line 90
'' اچھڑوتھر '' جہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے - Urdu Visitor

” اچھڑوتھر ” جہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے

عمر قریشی

آپ تھر کے بارے میں تو جانتے ہی ہیں ، نایاب نسل کے ہرن ، مور اور سریلے گیتوں کی سر زمین۔ لیکن تھر میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے ، ، حیرانی ہو رہی ہوگی۔آپ جیسے ہی کے قدیم بہاؤ گزر آگے بڑھتے اس جگہ کاو بع ع ہوٹر کہتے ہیں کہ یہ اسی مذکورہ صحرا کا گیٹ وے ہے جسے ” اچھڑو تھر ” (سفید تھر) کہا جاتا ہے۔ یہ گیٹ وے ایک ٹیلے پر بنا ہے۔اچھڑو تھر کا رقبہ محیط ہے اور اس کی حدود اور ہتھونگو ےے شروع سگھنودھ ہیں۔کھان سننور خییکھانچ رضلور ییکھانچ سضلور ییکھان، سنلور ب اس طرح گھوٹکی سے آگے پھر پنجاب سے جا ملتی ہیں ، جہاں بابا فرید کا چولستان اس سلسلے کو خوش آمدید کہتاہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چولستان اور تھرپارکر کے بیچ میں جو ریگستان ایک الگ شناخت سے پھیلا ہوا چھڑمو تھاوا جھیچھڑمو تھدو قوی ؤمو تھدر ہے۔کہود ن م تھدر ہے۔کہود ہیں ن م تھدر ہے۔کہود ج ن مچھڑ تھدر ہے۔کہجود ج ن مچھڑ تھدر ییود ہیں ن می تقدر ہے۔کہیود ہیں ن مچھڑ تھدر ہے۔کہود ہیں ن م تقدر یہے۔کہود ہیں ن مچھڑ تھدر قےود ہیں مو تھدر ہے۔کہیو د

'' اچھڑوتھر '' جہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے

1943 میں جب چارلس نیپئر اپنے آئرش سپاہیوں کے ساتھ رستم خان تالپور پیچھا یہاں تک آ پہنچے تھے, وقت ان کی کیفیت بیان لکھتے ہیں یہاں جب ہم منفرد ریت کے بیچ میں سے گزرے, تو دیکھا کہ یہ ٹیلے شمال و جنوب میں سیکڑوں میل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ، جیسے یہ ریت کے سمندر کی لہریں ہوں۔ یہاں میلوں تک ویرانی پھیلی ہوئی ہے ، نہ کوئی سبزہ اور نہ کوئی انسان نظر آتا ہے۔ کے اپنے نصیب ، اور سُکھ ہوتے ہیں ، بالکل طرح درختوں ، پرندوں ، اور علاقوں کے بھی نصیب ہوتے ہیں. حُزن و درد کی کیل ہر ایک کے نصیب میں گڑی ہوتی ہے۔ کہیں سطحی تو کہیں گہرائی تک پیوست ہوتی ہے.تاریخ کی گردانی کرنے سے پتا چلتا ہے گھاگھر اور ہاکڑہ کے کے کنارے ایک پورا آباد تھا, ہرے جنگل, جو اس بہاؤ کے کنارے چلتیں اور ” ڈھول ویرا ” کے عظیم الشان شہر تک جاتیں ، جو تہذیب وادی ٔسندھ کا ایک اہم تھا ، اس شہر کے آثار موجودہ بھارت گجرات ریاست میں موجود ہیں۔

ان باتوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا کہ سندھ کے کناروں پرتقریبا 90 سے 96 انسانی بستیوں کے آثار ملے ہیں, کہ ہاکڑہ یا کناروں پر سےتقریبا سو ہیں, مگراب, وہ پانی بہاؤ جس کے کنارے ایک جہان آباد تھا وہاں اور بے بسی کے سوا کچھ بچا.حد تو یہ ہے کہ کے بے رحم ہاتھوں ریگستان سے کچھ چھینا ہی. ” تاریخ ریگستان ” کے مصنف رائچند ہریجن نے اس علاقے کے بارے لکھا کہ, ” یہاں آبادی کم ہے اس لیے بستیاں (تڑ) ایک دوسرے سے دور دور واقع ہیں۔ یہ خیرپور سے لے کر جیسلمیر تک پھیلا ہوا ہے, بدقسمتی یہ ہے کہ زمین سفیدی اور کھیتی کے لائق بھی نہ ہو سے قدرت نے زرخیزی کیوں چھین, کیوں کہ یہاں کی ریت بالکل سفید ہے, جس میں گارے اور چکنی مٹی کے ذرات بہت کم ہیں۔ زرخیزی نہ ہونے کی وجہ سے یہاںپودے پھلتے پھولتے کہ اس سفید ریت میں زرخیزی ذرات نہیں ہوتے اس لیے بہت ہلکی اور ہوا رہتی ہے, ہی ہے کہ باڑی بہت ہوجاتا ہے, بلکہ یوں کہیں کہ ناممکن ہی ہوتا ہے, جب عمرکوٹ کے جنوب کی طرف جو ریت ہے ، اُس گارے اور چکنی مٹی کا ہوتا ہے ، جب وہاں بارش ہوتی ہے ، وہ مزید زرخیز ہوجاتی ہے۔ یہاں کی مٹی پانی کو جلدی نیچے بہنے نہیں دیتی ، پودا بآسانی لگا لیتا ہے اور زرخیزی کی وجہ سے اُہےس۔ نش ہو تو ت ت

'' اچھڑوتھر '' جہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے

آپ اگر ہتھونگو کے شمال میں چلے جائیں ، تو آپ کو ان ریت کے ٹیلوں میں کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں کا ایک سلسلہ ملے گا۔ سفید دودھیا ٹیلے اور نیچے نیلے پانی کی جھیلیں۔وہاں ” کاکاہو ” (کچھ مقامی لوگ اسے کہکائو کہہ کر بےا گیارتے ہیں) نلاب پکپکارتے ہیں) نلاب پکپکارتے ہیں) ن باب پکجھیار تے ہیں) ماہی گیروں کی ایک کشتی اس جھیل کے کنارے ہے.وہاں کے مقامی ماہی گیر چھوٹی مچھلیوں کے جال پھنس پر ہی خوش و نظر آتے ہیں, چلو سے ایسے ویران اور اجاڑ مناظر میں اگر تمناؤں اور خواہشوں گھوڑوں کے منہ میں لگام نہ جائے, تو زندگی انتہائی مشکل ہے.ویسے دیکھا جائے تو دنیا خوش رہنے کے لیے فلسفہ اور کوئی ہے بھی پھر چند کلومیٹرز آگے دیگر جھیلیں بھی نظر آئیںگی .ان جھیلوں پر میں پرندوں کے کے جھنڈ آتے ہیں, کئی اقسام کے پرندے, ان کی بولیوں سے یہاں منظر و سماں کھِل اُٹھتا ہے۔

ضرور آپ بھی یہ سوچیں گے کہ صحراء میں اتنی جھیلیں کیسے ، اس کی وجہ یہ ہے یہ علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت سطح سمند سے ن یہ ہی بنیادی سبب ہے کہ نارا کینال کے بائیں طرف جو دو نہریں ” کاکاہو ” اور ” کلانکر ” نکلتی تھیں, ان کے بہنے سے تو نارا کینال ریت صاف ہو ساتھ اس پانی سے جھیلوں کا ایک سلسلہ سا بن گیا, جو اب بھی پانی کے آنے سے جی اٹھتا ہے.ان جھیلوں کے کنارے پاس رہنے والے بچے ہوئے نظر آتے ہیں, وہاں ” کنڈی ” کے اکا, دکا اداس درخت بھی ہیں.جب آپ یہاں سے تھوڑا اور, تقریبا پندرہ کلو میٹر آگے بڑھیں گے ، توایک علاقے ” تڑ بانڈو ” کے قریب ، نمک کی جھیلیں بھی ہیں۔ ان جھیلوں سے کچھ لوگ تیز پانی سے تہوں میں جمے سفید چمکتے نمک کو کرتےہیں, جہاں اس تیار کی جا رہی تا کہ ان دیگر شہروں میں بھیجا کہ نمک کے ہمارا گزارا نہیں ہے, ہمارے کھانے بے ذائقہ رہتے ہیں, لیکن جو لوگ محنت کرکے اس نمک کو ہم تک پہنچاتے ہیں ، ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر پاتے۔ ان کی آمدنی اتنی کم ہوتی ہے کہ سننے والا ان کی بے بسی پر حیران ہی رہ جائے۔

'' اچھڑوتھر '' جہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے

ہتھو نگو سے تقریبا 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ‘راناہو”واقع ہے.وہاں پہنچنے کے راستے میں,’ ‘تڑ رابلاہو’ ‘بھی آتا ہے, جہاں ٹھاکر برادری کے سو سے ہیں.وہاں کے مقامی افرادکا کہنا کہ جب یہاں بارش ہو جاتی ہے ، تو مکئی اور گوار وغیرہ کی فصل ہو جاتی ہے۔ مال کی گھاس بھی اگ آتی ہے, اگر بارش نہ توروکھی سوکھی کھا کر گزارا ہو جاتا ہے.اچھڑو تھر میں زندگی ہی گزرتی ہے.یہاں جنگلی حیات ایک پورا جہاں بسا خاص کر آتے ہیں, اس کے علاوہ سنگچور, ریگ ماہی, ریگستانی چوہا , مشک بلی, لومڑ, کالا اور بھورا بھی اس ریگستان کی زندگی ایک اہم حصہ ہیں.یہاں”کنڈی ” کا درخت تقریبا ہر جگہ نظر آئے گا کہتے ہیں کہ یہ درخت اس بے رنگ اور زمین کا کئی صدیوں سے دوست بنا ہے ۔ ” راناہو ” میں کنڈی کے درخت اونٹ جا بجا نظر آتے ہیں ، اس میں ” ڈیھیوں ” کا سکھیسلہ ہے ۔ڈیھیوں ے،اہیںا ٹی وں ی ت کے ان ن ٹیوکہو ں یہ بھی آکاس بیل کی طرح ہوتی ہیں ، جن کی کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ یہ ریت کے ٹیلے بس سفر میں رہتے ہیں۔ جہاں ہوا لے جائے دھیرے دھیرے ہوا کے سہارے چلتے جائیں گے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ان چڑھنا مشکل ہے اوھیر ان پر نہیںوئی بکوتن ریگستان کے باسی کے لیے یہ چلنے والے ٹیلے نعمت ہوتے کہ اس ٹیلے کی نچلی سطح اگر طریقہ اسے رجم ودی ایاا رم مقدی تو پینے کت لا

اچھڑو تھر زندگی ، موت ، خوابوں ، تمناؤں ، مایوسیوں اور اُمیدوں کی ہار اور جیت کا ایک وسیع میدان ہے۔ یہاں کے باسیوں کے پاس جب تک اُمید کا گا ، تب تک یہ سفید صحراء آباد گا۔مقتدر حلقے اگر یہاںپینے کیا سن لیےت اد ،ا سن سن ت ت، سن سن سن ت،.




Supply hyperlink

About admin

Check Also

” گھنٹہ گھر ” فیصل آباد کی پہچان

فیصل آباد کاگھنٹہ گھر ، پاکستان میں ایک ایسا گھنٹہ گھر ہے جو برطانوی راج …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *