ارشاد ربانی ہے: ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین جس کا حکم نوح کو دیا گیا, اور کی وحی آپ کی جس کا حکم اور عیسی کو اس میں اختلاف برپا مت کرو (سورۂ شوری) ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے. انبیائے کرام کا رہاہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے, اسی کا نام اسلام ہے, ارشاد ہے, ترجمہ. اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے (سورۂ آل عمران) ایسےدین میں زور زبر دستی نہیں, ہر پسند اور انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا ہے, اندازہ ہو صحیح راستہ اختیار ہے اور غلط.اسلام کی تعلیمات تمام افراد بشر کے لیے ہیں, اسلام کسی خاص طبقے, علاقے, تہذیب یا نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا, بلکہ سے خطاب کرتا ہے, وہ سب کے لیے دین رحمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: دنیا میں میری رحمت ہر مومن و کافر ، نیک اصحور بد یکیا ایجےور بد ،کیاا ور بد ، ا ر ور بد ئی سب نر ات تہع اسی طرح قرآن کریم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو جہانوں کے لیے رحمت قرار ہے, ارشاد ربانی ہے: ” اور (اےپیغمبر!) ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا. ” (سورۃالانبیاء)
سورئہ احزاب میں فرمایا گیا: ”. حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ” یعنی صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات ہی عقائدو افکار, عبادات, معاملات, معاشرت, سیاست, معاشیات, غرض ہر شعبۂ زندگی میں کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں سراپا رحمت ہوں ، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ (جامع صغیر)
ارشادِ ربّانی ہے”اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس کیا, تاکہ تم ایک دوسرے کی درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو, اللہ سب کچھ جاننے ، ہر چیز سے باخبر ہے۔ ” (سورۃ الحجرات)
اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول ہے کہ کسی کی عزت شرافت کا معیار اس کا قبیلہ یا وطن ہے, بلکہ تقوی اور اللہ تعالی نےمختلف بنائیںکہ وہ ایک پر اپنی بڑائی جتائیں, بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا, تمہارا خون, تمہارا تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں, آج کا یہ دن تم پر ہے.یعنی جس طرح ” حجۃ الوداع”کا دن مسلمانوں کے لیے بڑا مقدس ہے اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.اسی طرح کسی کا ناحق خون نہیں بہایا سکتا, اس کا مال نہیں سکتا اور اس کی نہیں عمل کرنے کا حق حاصل ہے, شریعت نے ہمیشہ رواداری اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے. معاشرے میں جب بھی بگاڑ پیدا ہوا۔ وہ دوسروں کی رائے کو پامال کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
سورۃ المائدہ میں ارشادِ رب العزّت ہے: ترجمہ: ” اے ایمان والو! ایسے بن جائو کہ اللہ (کے احکام کی پابندی) کے لیے ہر وقت تیار رہو, اور کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ کرے کہ تم ناانصافی انصاف سے کام ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو, اللہ یقینا تمہارے تمام کام سے پوری طرح باخبر ہے ”. رواداری کے سلسلے میں یہ آیت بنیاد کی حیثیت ہے کہ رواداری کو کا قرار دیا جاتا مطلب ہے کہ مذہب, تہذیب, ثقافت, رنگ و نسل میں اختلاف رکھنے والے ہر شخص خواہ وہ دوست ہو یا دشمن آپ عدل و انصاف معاملہ کریں ، اس کی وجہ نہ طرح یا ظلم روا رکھا جائے۔ آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ کسی قوم سے عداوت اور دشمنی تمہیں اس بات پر نہ کردے کہ تم ام۔اف ہےااا دون ،م تور صااا دون بلتکہ تر
ارشاد باری تعالی ہے: ” اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقےکا پیروبنادیتا (مگر کسی کو زبردستی, کسی دین پر کرنا حکمت کا تقاضا نہیں, لیے انہیں اپنے اختیار سے مختلف طریقے کا موقع دیا گیا ہے) اور وہ اب ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے ”۔ (سورئہ ہود) اس آیت کریمہ میں حقیقت کیا گیا وہ بھی کی ایک اہم بنیاد ہے کے پیش نظر بات رہنی چاہیے مختلف طبقات ہے, اسے ختم نہیں کیا جاسکتا .اس لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور دوسرں کے مذہب, عقائد وغیرہ کو برداشت کرنے کا پیدا کیا جائے اور کے ساتھ مذہبی, سیاسی, فکری اور کا معاملہ کیا جائے. ” اسلام ” سلامتی اور ” ایمان ” امن سے عبارت ہے, یہ دین انسانیت اور و سلامتی کا علم بردار ہے, دنیا کے مذاہب اسلام کو یہ امتیاز کہ اس کی اساس مذہبی رواداری پر قائم ہے.
سورئہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ” اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اولاد آدم کو عزت بخشی ” یعنی آدمی کو حسن صورت, اور عقل و عنایت فرمائے جن سے وہ منافع اور نقصان کو سمجھتا ہے اور اچھے برے میں تفریق کرتا ہے. ۔غرض نوع انسانی کو حق تعالیٰ نے کئی حیثیت عزت و بڑائی دے کراسے اپنی دیگرمخلوقات پر فضیلت دی۔
ترجمہ: دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ، ہدایت کا راستہ ، گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہوچکا ہے۔ (سورۃ البقرہ) اس آیت کریمہ میں مذہبی آزادی دی گئی ہے کہ کسی پر مذہب اور عقیدے بدلنے میں زور زبردستی کی جائے, اس کا تعلق اور ضمیر سے ہے, رواداری میں اس اسی حقیقت کو سورئہ کافرون میں بھی بیان کیا گیا ہے: ترجمہ : ” تمہارے لیے تمہارا دین ہے ، میرے لیے میرا دین ”۔
ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: ” پھر بھی یہ کافر اگر منہ موڑتے رہیں تو (اے پیغمبر!) آپ کی ذمے داری صرف اتنی ہے واضح سے پیغام ” (سورئہ النحل) یعنی اس قدر احسانات سن کر بھی اللہ کے سامنے. نہ جھکیں تو آپ کچھ غم نہ کھایئے ، آپ اپنا ادا کرچکے ، کھول کھول تمام ضروری باتیں سنادی گئیں ، آگے ان کا معاملہ پدرد کیجئے د
سیدنا فاروق اعظم کا ایک غیر مسلم غلام تھا, دلی خواہش تھی کہ وہ حلقہ اسلام ہوجائے تو داری دے دی جائے, نے اس ہا خواہش ہمیشہ انکار کیا, حضرت عمر اس کے انکار پر ہمیشہ یہی فرماتے: ” لا اکراہ فی الدین ” پھر آپ نے اسے آزاد فرمادیا۔ (کتاب الاموال)
ارشاد ربانی ہے: ترجمہ: ” اپنے رب کے راستے کی طرف کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی کرکے دعوت دو ” (سورۃ النحل) اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے تو مسلمانوں کو اسلام کی یہ ہدایت ہے. کہ وہ امن و سلامتی, انصاف, مساوات و رواداری, ویک جہتی, فیاضی اور انسانیت اسلامی تعلیمات سے مسلم حضرات کو کرائیں اور دین کی دعوت پیش, لیکن کسی طرح دبائو ڈالنے اور زور و زبردستی کی نہ کی جائے, اگر وہ نہ اور مذہب کے سلسلے میں بحث و مباحثہ کرنا نہایت فراخ دلی اورخوش اسلوبی کے ساتھ مذہبی ہونی
اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات تسلیم ساتھ رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دیتا ہے ، تہا انسان کو ب. زندگی .یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام رواداری, امن وسلامتی انسانیت کا درس دیتا ہے, یہ دنیا واحدمذہب ہے جس پرامن باہم کا درس دیا مکالمے اوردلیل کی کی دعوت دیتا ہے, اسلام دیگر مذاہب کے حوالے سے احترام کی تعلیم دیتا, تمام انبیائے کرام تمام مذاہب کے علم برداروں کےادب واحترام درس دیتا ہے.قرآن و اور پیغمبر رحمت, محسن انسانیت کی یہ کے لیے مشعل راہ ہیں.آج دنیا میں تحمل و برداشت, امن و سلامتی کے درمیان مکالمے اورمذہبی رواداری کے فروغ لیے انسانیت کو اسلام پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ رحمت اور یہی احترام انسانیت کا منشور اور امن و سلامتی کی حقیقی ضامن ہیں۔