اردو میں لکھی جانے والی متعدد آپ بیتیوں نے, اپنی متنوع خصوصیات بمثل ذاتی احوال و واقعات, خاندان, عہد و ماحول, شغل شخصی سرگرمیاں, انفرادی و اجتماعی دوست احباب, معاصرین اور اسلوب سبب, بڑی شہرت و مقبولیت پائی اورجن کا ذکر صنف ادب جائزوں و لازما شامل رہتاہے.اسی زمرے میں حیدرآباد کے دربار سے منسلک اہم شخصیت یار جنگ کی کردہ معروف ومنفرد خودنوشت سوانح عمری ‘شامل ہے جوایک خاص شہرت کی حامل رہی ہے.
ہوش یار جنگ بہادر یا سید ناظرالحسن فرزندسید اقبال حسین اگرچہ شاعر تھے اور نثر نگار بھی, لیکن و تصنیفی خدمات سے زیادہ اپنی سماجی و انتظامی حیثیتوں کے سبب زیادہ و ممتاز ہوئے. پیدائشی و خاندانی تعلق و نسبت ان تھی ان قابل ِ فخر بھی ضلع ہردوئی کایہ خیز خطہ ، ان. بلگرامی اور سے بڑھ کر سید غلام علی آزاد بلگرامی جیسے نسبت رکھتا ہے, لیکن انتظامی ذمے و اعزازات کے طفیل بلگرامی کو شہرت دکن سے آغاز میں انھوں نے خود حیدرآباد سے اپناایک ادبی رسالہ ” ذخیرہ ” جاری کیا جو 1918 ء میں اس وقت تک نکلتارہا جب کہ یہ بطور سزا ریاست نہ ہوئے.اس کے سالگرہ نمبرمیں کوئی ایک مضمون, جس کی تفصیل انھوں نے نہیں دی, انھوں نے ایسا شائع کردیا کہ جو شاہی عتاب کا سبب بنا اور وہ مملکت بدر کردیے گئے.
حیدرآباد سے نکل کر وہ مختلف ریاستوں, جیسے رامپور میں قسمت آزمائی کرتے رہے لیکن کی دل کشیاں لینے دیتی تھی تو سال کے بعد حیدرآباد کا رخ کیا.مہاراجہ سے یہ پہلے بنک میں ملازم ہوئے پھرسرکاری ودرباری مناصب پرجنوری 1948 ء میں دوشی تک فائز ہوتے رہے لیکن سبک کے بعد بہت دل برداشتہ کی دل برداشتگی کی ساری ان کی آپ بیتی ” مشاہدات ” میں ظاہر ہوتی ہیں.یہ تصنیف, بقول مولانا عبدالماجد دریابادی ان کی دنیوی زندگی کے اتار ہے. ” مشاہدات ” انھوں نے 25 / فروری ۱۹۴۹ ء کو لکھنے کیے تھے جو ۱۹۵۰ ء کو مکمل انھوں نے مصلحت نہ سمجھا.
مصلحت ان کی یہ تھی کہ ِ ۱۹۴۸ ء تھا پسند ہوش نے یہ ان دنوں جب سیاسی و کے اور. تیسے اقدامات رضاکار تحریک سے وابستہ ” مجاہدین ” کے خلاف سزاؤں کے فیصلے ہوچکے تھے اورکچھ عدالتوں میں زیر التوا تھے, کو ان کے حتمی فیصلوں کا تھا کہ ان سے کا ذکر یا حوالہ ” مشاہدات ” میں شامل تھا اور مصنف کسی موجودہ سرکاری ابتلأ سے دوچار ہونا نہ تھے.اس لیے اس کتاب کی اشاعت سال تک التوا کا شکاررہی اور میں انقلاب پریس شائع ہوئی.اس مصلحت کیش والوں میں ” مشاہدات ” کے بارے میں ایک عام تجسس اور اشتیاق پیدا ہوگیا تھا چناں چہ جب شائع ہوئی تو اسے ہاتھوں ہاتھ اور اسی وجہ سے جلد ہی ناپید بھی ہوگئی اور لوگوں کو ڈھونڈھے نہ ملتی تھی۔
” مشاہدات”کی اشاعت کے محض چند ہفتوں کے ہوش اس دار فانی سے رخصت ہوگئے.پیدائش کی تاریخ خود نے کہیں نہ لکھی ہی ان کی آپ میں ملتی ہے لیکن اور دوسری روایت کے مطابق 8 / جون 1900 ء کو پیدا ہوئے تھے. لیکن ۱۸۸۶ ء حقیقت قریب لگتی ہے کیوں کہ نے ۱۹۱۵ ء میں سے اپنا رسالہ“ذخیرہ ” شائع کرنا شراوع کیکیاتھا جس کا ن لن بو لقد باب لگاود لابق لابق لقابد لکھن تو لقد ن لابق لدابق لقابق لقاب
اس کی سرپرستی نواب عمادالملک نے کی اور خود اپنے لکھنے کے علاوہ دیگر اصحاب سے اس کے لیے لکھوائے.تخلص ‘ہوش’ بھی ان ہی کا دیاہوا تھا. ” مشاہدات ” نے اشاعت کے بعداپنے مباحث و مطالب کے سبب لوگوں کو, جو ہوش کو نہ بھی جانتے تھے ، ان کی طرف متوجہ کیا اور پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی ایک فضا پیدا کی۔ عبدالماجد دریا بادی نے اس کی اشاعت کے فوری بعد اپنے رسالے”صدق ” میں اس پر تبصرہ شائع گئید جس سے نت کید س سے اتس کیشہا جس سے نت کید
ہوش نے بھر پور عملی زندگی جس ذمے داریاں مصاحبت کے طور طریق بھی مجلسی شغل اشغال بھی اور ادبی تخلیقی بھی تھیں.انھوں نے ادبی بھی دخل دیا اور ” ذخیرہ ” کوئی تین سال تک نکالتے رہے, جس میں معاصرین کی تخلیقات شائع کی جاتیں۔ اسی کے توسط سے ان کے روابط معاصر ادیبوں اور سے سے ہوئے جن میں مہدی افادی, پیارے شاکر میرٹھی, یاس یگانہ چنگیزی, اکبر عبدالحق, نیاز فتحپوری, مولانا عبدالماجد دریابادی, ندوی, مولانا عبدالباری ندوی, مولانا مناظر احسن گیلانی, تاجور نجیب آبادی ، مولانا ظفر علی خاںجیسے اکابر بھی شامل تھے۔
عربی و فارسی میں بہت اچھی تھی و حاضر کوئی ثانی نہ رکھتے تھے.خوش میں کمال حاصل تھا کہیں اور سنا کوئی کے اور چھاجاتے.نظام حیدرآباد میرعثمان خاں ان کی ان صفات کو اس حد تک تھے کہ انھیںاپنے مصاحب خاص درجہ دے دیاتھا اسی انھیں ” ہوش یار جنگ ” کا خطاب عطا کیاتھا.بل کہ نظام حیدرآبادان کی خوش کہ اپنے ساتھ سفر میں بھی ہم رکابی کا تھے چناں چہ مملکت اور بیرون کے متعددشہروں کے سفر میں شریک رہے اور جو ان مقامات مناظرہوش نے تحریر کیے ہیں وہ
ہوش شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ شاعری میں حیدرآباد کے اس وقت کے ممتاز شاعر نظم طباطبائی (۱۸۵۲ ء ۔۱۹۳۲ ء) سے تلمذ اختیار کیا۔ طباطبائی نے ان کی ایک مختصر تصنیف پر, جو بدیہہ پر تھی, اور جس میں عربی, فارسی کے بدیہہ گو شعرأ کا مع توضیحات اور شان کیے تھے, ایک مفصل اور محققانہ مقدمہ لکھا ہوش نے نظم طباطبائی کی مشہور زمانہ نظم”گور غریباں ” پر ، جو انگریز شاعرتھامس گرے (Thomas Grey ، ۱۷۱۶ ء ۔۱۷۷۱ ء) کی نظم کا ترجمہ تھا ، ایک بڑا معلومای گکی ےاا
دیگر تصانیف میں”عروس ادب ” (مضامین کا مجموعہ) ، ” ہماری بت پرستیاں ” ، ” طوفان ِ محم ‘ ” اور ” مثنوی یوسف ذلیخا”کی تدوین جیسی کاوشیںشامل مستقل کتابوں کے علاوہ وہ گاہے گاہے مضامین دیگر ممتاز ادبی میں بھی لکھتے اور شائع رہے, جن کے حوالے ” مشاہدات ” میں موجود ہیں اور جو ان کے مجموعے ” عروس ِ ادب ” میں بھی شامل ہوئے۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ میں صلاحیتیں موجود اور ان کا اسلوب بھی نہایت اورپرکشش تھا لیکن ان سماجی اور کہ دربار داری اور سے کوچھین لائق تھا.اس کی ایک قدرے تلافی ہمیں ” مشاہدات ” کی صورت میں ضرور نظرآجاتی ہے کہ اس کے اردو زبان کے خودنوشتہ ادب میں اپنی نوعیت ایک منفرد خود ہی یہ بھی حقیقت ہے خودنوشت سوانح عمری کے فن کے لحاظ سے یہ معروف معنوں میں ایک معیاری خود نوشت سوانح عمری بھی نہیں کہی جاسکتی.
اس میں یہ صفت تو ہے یہ زندگی کے یا متعلقہ کوائف کو اور مصنف و نظریات اور تاثرات مشاہدات کوہمارے لیکن یہ ایک مربوط واقعات ساتھ ارتقائی نہیں کرتی.آغاز میں اگرچہ کچھ خاندانی پس منظر اور جائے پیدائش ” اور اس کے تاریخی و علمی امتیازات کا ہے اور بڑے فخریہ ہے لیکن اپنے گھریلو ماحول ہمیں اس مناسب و ترتیب میں خصوصیت کے ساتھ نہیں ملتا۔ ان کے مقابلے میں اپنے سیاسی مسلک اور اپنے مذہبی مسلک کو انھوں نے ابتدأ ہی میں وضاحت بصصویارت ِابو ب تکدر
وہ مسلکا شیعہ تھے لیکن اہل سنت سے بہت قریب اوراس ضمن میں حددرجے روشن خیال تھے کہ سید سلیمان نے انھیں”وہابی شیعہ ” قراردیاتھا.عمائدین حکومت اور منتظمین و مدبرین ہر استوار رہے .جو جو واقعات انھوں نے لکھے ہیں اور شخصیات کے جو کچھ یا جہاں جہاں وہ رہے ، سفرکیا ، ان مقامات کا گہری سے مشاہدہ ان سب کو اپنی ان س و نیف خو صاصا ہےتیمات ورع
ان ساری صفات اور خصوصیات سے قطع نظر اس کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ بڑا حصہ سقوط حیدرآباد کے آخری کے سیاسی بیانات و احوال متعدد مصنفین نے تحریر کیے کے علی کی ضخیم انگریزی The tragedy of Hyderabad ہے جسے حیدرآبادی عوام کا ایک مؤقف علی خاں سیاسی مسائل میں متفق الخیال نہ تھے۔
لایق علی بھارتی جارحیت کو روکنے اور حیدرآباد کو آزاد مختار رکھنے کے قائل تھے اور کی جدوجہد میں مصروف ” اس علی خان تذبذب کے شکار صلح جوئی اور مفاہمت چاہتے تھے.مملکت حیدرآبادکے آخری ایام سقوط کے عرصے کی یہ صورت حال اور و واقعات متعلقہ متعدد کے علاوہ, جن الحروف کی کاوش ” تحریک آزادی اور مملکت حیدرآباد ” بھی شامل ہے, اور اس نوع کی پچاسوں کتابوں کے ساتھ ساتھ ذاتی یادداشتوں پر مشتمل تصانیف میں ” مشاہدات ” کے علاوہ خاصی تعداد میں موجودہیں.
ذاتی اور چشم دید یادداشتوں کے علاوہ افسانوں اور ناولوں بھی سقوط اور اس کے دوران والے حالات اور المناک واقعات کیے گئے ہیں, جن میں ” ایسی بلندی ایسی پستی ”; ابراہیم جلیس کی ” دوملک ایک کہانی ”, واجدہ تبسم کی ” نتھ اترائی ” ، اور جیلانی بانو کی ” ایوان غزل ” چند نمایاں و مثالی کاوشیں ہیں۔واجدہ مسم یےاا یےم م زیام یقم م دم دم م دم د بم لد م م د باو د الانی بتانو ج یہ نمائندہ حوالے ہیں ، یگر متعدد ناول نویسوں اور افسانہ نگاروں نے بھی سقوط کو موضوع بنایا ہے۔
ایسی تمام تصانیف کے مقابلے میں ” مشاہدات ” کی انفرادیت اور اہمیت یہ ہے کہ یہ ایسے مصنف تصنیف ہے جوسیاسی ابتلا دوران حکمران وقت خاص رہاہے اور حکومت کے اندرونی حالات, نقطۂ نظر, اور مصلحتوں سے اپنی ممکنہ حد تک واقف رہا ہے. چناں چہ دیگر تمام مصنفین کے مقابلے میں, جنھوں نے حوالے سے اپنے اپنے مشاہدات و خیالات اپنی تصانیف پیش کیے ہیں, ” مشاہدات”کوایک راست اور بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل اور مخصوص نقطۂ نظر کے مطابق ہو یا عمومی اور عوامی تناظر کے حقائق سے بالاتر یا دور ہو۔
اپنی مخصوص حیثیت میں متعلقہ موضوع اور عہد و تعلق سے یہ ایسی تصنیف ہے سے استفادے اور حوالے بغیرسقوط مملکت آصفیہ (ستمبر 1948 ء) کے دوران پیش آمدہ حالات و مسائل کی تاریخ کو کیا جاسکتا. لہٰذا یہ تصنیف ان حوالوں سے ایک ناگزیر ماخذ کی حیثیت و اہمیت رکھتی ہے۔