علی گڑھ یونیورسٹی میں اسرار الحق مجاز اور جاں نثار اختر کلاس فیلور ہے۔ دونوں کے پاس انٹر میڈیٹ تک سائنس تھی۔ Zoology کی کلاس تھی۔ مینڈک پن کیے ہوئے ڈش میں دونوں کے سامنے رکھے تھے ، جنہیں جاں نثار اور مجاز کلاس فیلوز سے Dissect حرارہےاب تں اوت تخود ان کے پروفیسر نے دیکھ لیا۔قریب آکر کہنے لگے: ” میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ دونوں نے سائنس کیکہوں لھ اکھید ‘ہے ، سے ت
جاں نثار اختر تو چپ رہے ، مجاز نے برجستہ کہا: ” کہا تو والد صاحب نے تھا۔ ”
مجاز کی نظم ” آوارہ ” ” ساقی ” کے سالنامے میں شائع ہوئی تھی ، جس میں ” رات ہنس ہنس کر یہ ںتیا و و او دو نر الے بنر
چل کسی گل زیر و گوہر بیز ، کا شانے میں چل
اس کے کچھ دن بعد جاں نثار اختر نے ایک تین شعر کا قطعہ کہا ، جس کا پہلا شعر تھا:
پھر ہوں اک شہنازِ لالہ رخ کے کاشانے میں آج
رات کٹ جائے گی پھر رنگین افسانے میں آج
مجاز کو ” شہناز لالہ رخ ” کی ترکیب بے حد پسند آئی۔ دوسرے دن مجاز نے جاں نثار اختر سے کہا: ” اختر! میں نے تمہاری ” شہناز لالہ رخ ” کو چرالیا ہے کسی گل ریز گوہر بیز کاشانے میں ” کی بجائے ” چل کسی شہناز لالہ رخ ” کی ترمیم کے ساتھ شائع ہوئی اور جب جاں نثار پہلا مجموعہ مرتب کرنے بیٹھے تو انہوں نے اپنا قطعہ مجاز کے نام سے منسوب کردیا خود اس ترکیب کو مجاز سے لینے کا الزام لے لیا۔
زہرہ سے جاں نثر اختر کا تعارف مجاز کی ہی معرفت ہوا تھا۔ مجاز کی نظموں میں یہ نام بار بار آتا ہے ، مجاز سے عشق کیا ، اس کے لیے زدوکوب سہی ، آوگئیےرہ و بدااام ےارہ و بداوام ہ باوکر زہرہ ظاہر ہے جاں نثار اختر سے ذہنی طورپر تو متعارف تھیں۔ اب ذاتی تعارف ہوا تو اپنی آٹو گراف بک اٹھا لائیں اور جاں نثار کے آگے بڑھا دی۔ جاں نثار اختر نے شرارتاً اس پر جگر کا شعر لکھ کر قوسین میں جگر کا نام لکھا اور نیچے اپنے دستخط کردئیے۔
نظر فروز رہے ، سامعہ نواز رہے
زہے مجاز کہ وہ زینت مجاز رہے
مجاز نے آٹو گراف بک لے کر دیکھنا چاہا کہ جاں نثار نے کیا لکھا ہے ، آٹو گراف بک مجاز کو نہیں دیکھنے دی گئی۔
آل احمدسرور ، جس زمانے میں لکھنو یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ، جاں نثار اختر اور صفیہ اختر ان سے کے۔ ر کے کے کے ان کی بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں۔ اردو تنقید نگاری موضوع بحث بن گئی۔ صفیہ کہنے لگیں:
” میں سرور صاحب سے کہتی ہوں کہ آپ اس وقت تنقید نگار نہیں بن سکتے ، جب تک ” بہ حیثیت مجمکھب س تی وں کہ آپ اس وقت تنقید نگار نہیں بن سکتے ، جب تک ” بہ حیثیت مجمکھوع ” ئےضاوا ‘و د
بیگم سرور کہنے لگیں کہ
” میں نے سرور صاحب کا نام ہی ” بحیثیتِ مجموعی ” رکھ دیا ہے۔ ”
جس پر خود سرور صاحب بھی بہت محظوظ ہوئے۔
عسکری صاحب ، بھوپال کے مشہور وکلا میں سے تھے اور اردو ادب کے دلدادہ اردو میں انیس اردو میں انیس اوروارسی میں فھے توسی کےسی میں فف توسی کےسی میں فف توسی کےسی میں فف توسی کے ع توسف ایک محفل میں انیس کے مرثیے سنائے چلے جارہے تھے۔ جاں نثار اختر بھی موجود تھے ، تفریحاً کہہ دیا: ” انیس کو آپ اتنا کیوں اچھالتے ہیں ا، تین سو پینشا ا ‘تہےن سو پینٹھا دن میں بتت ع ع
وہ خفا ہوگئے اور جاں نثار اختر سے یک لخت ملنا چھوڑ دیا۔ دو سال گزر گئے ، ایک مشاعرے کے سلسلے بھوپال بات کا پتا چلا تو عسکری کو لے کر نثار کے ر کےاےا ا گھر اااا ا ن ن ہوگئی ت ت