کہا جاتا ہے کہ ہزاروں برس پہلے زمین کا بہت سا حصہ برف کے نیچے دبا ہوا پھر آہستہ آہستہ برف پگھلنے لئےا اور زلنے لگیا اور زندر کےمدور زندگی کےم انسان غاروں سے نکل کر زمین پر پھیل گیا اور پھر حیرت انگیز شاہکار تخلیق کیے۔ دیوار چین کو ہی لے لیجیے ، اس کو خلا بازوں نے چاند سے بھی دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح لہلہاتے کھیتوں ، سنگلاخ پہاڑوں ، بہتے جھرنوں اور فطری حسن سے مالا مال ہاتیوں نمیواا اتھوں نمپونہ ہے ن و د د ن پور د
دیوارِ سندھ
تاریخ کے صفحات میں اس قلعے کا تذکرہ رانی کا کوٹ ، موہن کوٹ اور رنی کوٹ کے نام سے ملتا ہے۔ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے کر ، عالمی ورثےکی فہرست میں شاہےا کر لیا گیا ر لیا گیا تقریباً 32 کلو میٹر رقبے پر پھیلے اس قلعہ کے گرد مشہور کھیرتھر میں پتھروں کو تھراش کاا اس کے کے فصی کے
رنی کوٹ ضلع جامشورو کے قدیم علاقے سن کے شمال مغرب میںواقع ہے جبکہ حیدر آباد سے یہ 90 کلو میٹر کے فاصلے پر اصلے پر یہ قلعہ وادی کے گرد اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ ہزاروں کے موسمی تغیرات ، سورج کی تمازت اہےور زمیان کا اور زمیان کا ار ب اش پھیب اس ارتعاش پھیب اس
دنیا کی قدیم ترین جگہ
رنی کوٹ کا شمار دنیا کےقدیم ترین مقامات یا تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سے ڈائناسورز کے فوسلز بھی ملے ہیں۔ قدامت کے لحاظ سےقلعےکی مختلف تاریخیں سامنے آئی ہیں۔کسی ہے اسے رومیوں نے بنایا ہے ، کوئی اہے سام لام ل ل کچھ اسکالرز ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اسے 540 سال قبل مسیح میںایرانی شہنشاہ سائرس اعظم نے بنوایا ایکھا مزہریہ بھید ایکیکا مزہریہ بھی د قلعے سے ایسی کوئی چیز نہیں ملی جہاں سے اس کی قدامت اور تاریخ کا پتا چل سکے۔ پچیس تیس سال پہلے یہاںخطرناک جانور تھے۔
رنی کوٹ کے دروازے
بارش کے موسم میں قلعے کے سنگلاخ پہاڑ سرسبز پودوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ جب ابر برستا ہے تو ان پہاڑوں پر جا بجا جھرنے بہنے لگتے ہیں۔ تاحدِ نگاہ دلوں کو موہ لینے والے مناظر ہوتے ہیں ، جنہیں سیاح اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رنی کوٹ کے چار مختلف سمتوں میں دروازے ہیں اور ہر دروازہ سمت میں قائم علاقوں سے منسوب ہے۔ مشرق میں سن دروازہ ، جنوب مشرق میں آسری دروازہ ، شمال میں شاہ پیر دروازہ اور مغرب میں موہن دروازہ ہے۔
موہن دروازے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ درمیان میں کے سے آنے والی 25 کلو میٹر طوکےل ندی موجود ہے ،ایےو موؤثود ہے ،اجو کے رت رت رت رنی کوٹ کی فصیل میں مناسب فاصلے پرروزن بنائے گئے ہیںجو شاید آوروں پر تید آوروں پر تیر اندازی کرکے انہیں پپسپا یا دور یے ت پھر ع
دفاعی مورچہ
اس دور کے لوگوں نے نہ صرف چنے کی بجری, ٹاٹ, شنگرف اور دیگر اشیا کےمسالے پتھروں کو جوڑنے کا بلکہ وہ اپنی لیے اجناس آگاہ تھے, اس لیے وہاں غلہ رکھنے کا گودام بھی موجود ہے. 30 فٹ اونچی فصیل کے ساتھ ساتھ پہرہ داروں کے گشت کے لیے 6 فٹ چوڑی گذرگاہ ہے۔ پہرہ داروں کے بیضوی نما کمرے ہیں ، جن کے سامنے سے گزر کر دوسرے دروازے سے کھلی جگہ آتی ہے۔ اس حصے میں ساسانی قوم کے محلات کی طرز پر کمرہ بنا ہوا ہے ، جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جبکہ اوپر کنٹرول کے بغیر ایک بہت بڑی دیوار بنائی گئی ہے۔ اس دیوار کے متعلق کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عظیم دیوار ہے ، جس کو کی چوٹیوں نے سمیٹا ہوا ہے۔ اب تک یہاں پر آبادی کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کیونکہ دیکھنے میں یہ نظر آتا کہ اسے صرف دفاعی نقطۂ نظار سے ھ ت تیر ار سے ت ت تر اس دیوار کے اندر جو قلعہ ہے وہ تقریباً 29 کلو میٹر پھیلا ہوا ہے ، جو مشرق کی جانب سن اسٹیشن کے نزدیک ہے۔
شیرگڑھ قلعہ
اس قلعے سے 15 کلومیٹر کےفاصلے پرمیری کوٹ اوردوسری سمت میں شیرگڑھ قلعہ واقع ہے ، جوس سمندرسے 1480 فٹ کی بلندی پعرودی پعرودی پعرودی یوں تو ان دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ملتی مگر ہے کہ میری اور لکشمیر جبی نامی باااہ یا سپہ سادااہ یا سپہ ہیدوان ا سپہ دوان کی ع واں رع اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے سوائے ان لوگوں جو پہاڑوں پر چلنے اور انہیں سرکرنے کا خاصاکھوئےربہ کا خاصاکھوائے ہا اصاجتجتربہ اکھتئےترب اس قلعے سے تھوڑی دیر کی مسافت پر 150 مربع گز پر محیط میری قلعہ واقع ہے۔
کلہوڑہ, تالپوروں اورانگریزوں نے اپنے دور حکومت میں جنگی حکمت ضرورتوں اور سہولتوں کو مدنظر رکھتے قلعے میں تبدیلیاں کیں, اس کی کسی حد متاثر ہوئی مگر ہی اس ابھر کر سامنے انگریزوں نے یہاں پتھروں پر پھولوں کے نمونے تراش کر محرابیں, طاق سیڑھیاں اور دروازوں کی چوکھٹیں بنائیں۔ فصیل پر پہنچنے کے لیے دروازے میں داخل ہونے کے بعد دائیں جانب پتھروں کی سیڑھیاں بنائیں ، یہیں پر ایکم کنواں کھاو ن ن ب