خطیبِ رسولﷺ ، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ مسجدِ نبویؐ میں تشریف فرما تھے۔ آپس میں محوِ گفتگو صحابۂ کرامؓ میں سے کچھ کی آوازیں بے خیالی میں معمول سے اونچی ہو گئیں۔ یہ سب ان جانے میں ہوا, ورنہ صحابۂ کرام ﷺ کے ادب و احترام بہت خیال رکھتے تھے, ذوالجلال کو اپنے محبوب کی موجودگی میں کی یہ بے احتیاطی امین, اللہ کا لے کر حاضر ہو گئے ” اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو, جس طرح تم میں ایک دوسرے ہو, کہیں تمہارا نہ ہو ” (سورۃ الحجرات) .اس آیت کے نزول پر صحابۂ کرام, اللہ تعالی کی ناراضی کے خوف سے مزید محتاط ہو گئے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ کی آواز قدرتی طور پر بھاری تھی اور بلند چناں چہ اُنہوں نے خواز کو گھر میں ااوشہ ن ر می ااو ن بر لد رد تنہائی میں اتنا روتے کہ داڑھی آنسوئوں سے تر ہو جاتی ، حتیٰ کہ کھانا پینا بھی تَرک کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے حال احوال سے رہا کرتے تھے, سو, جب کئی دن گزر اور حضرت ثابت بن قیس نہ آئے, تو آپ حضرت سعد بن معاذ سے دریافت فرمایا”ثابت کا کیا حال ہے? ‘ ‘، حضرت سعدؓ نے جواباً عرض کیا”یارسول اللہؐ! وہ میرے پڑوسی ہیں, مگر مجھے ان کی بیماری وغیرہ تو کوئی علم نہیں, البتہ ابھی کر ان کی کیفیت معلوم کے آپ کو مطلع کرتا ہوں. ” حضرت سعد جب ان کے گھر گئے, وہ سر جھکائے بیٹھے تھے. حضرت سعدؓ نے پوچھا ” اے ثابتؓ! کیا حال ہے؟ ” جس پر اُنھوں نے جواب دیا”بُرا حال ہے۔ (میری آواز سب سے بلند اور بھاری ہے) چناں چہ بعض اوقات (غیر ارادی طور پر) میری آواز, رسول اللہ کی آواز سے بلند ہو جاتی تھی, لہذا (اس آیت کے نزول کے بعد) اب میرے سب اعمال ضائع ہو گئے اور اسی غم نے مجھے نڈھال کر رکھا ہے۔ ” حضرت سعدؓ نے واپس جا کر نبی کریم ﷺ کو تو آپؐ نے فرمایا ” ام ا ن ویور ‘) وویور’ ویور ‘

یہ ہے اللہ کے رسولؐ کی عظمت کہ صحابۂ کرامؓ کو حکم رہا ہے کہ نبیؐ کی مجلس میں تو ادب اور قریم۔ کے ساتھ ،ردھیم ساتھ ، ، دےمے کہیں ایسا نہ ہو کہ ذرا بے احتیاطی بھر کی کر دے اور یہی حکم بعد کے کے لیے بھی کہ جس مجلس میں خدا کا ذکر ہو, تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جو دل اللہ کے رسول کے ادب اور احترام سے خالی ہے, وہ دراصل تقویٰ سے خالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے بزرگ اور عُمر رسیدہ افراد کے ساتھ بھی گفتگو کے دَوچان آاداب کا پوہم ۔اداب کا پوہم ۔اب ا پوہم ۔اد رآوت م ال رآوت یںوم رسول اللہؐ نے فرمایا”جب اپنے والدین سے بات کرو ، تو ایسے کرو ، جیسے غلام اپنے آقا سے کرتا ہے۔ ”

سلسلۂ نسب

آپؓ کا سلسلۂ نسب یہ ہے۔ ثابت بن قیس بن شماس بن زہیر بن مالک بن امرء القیس بن مالک بن اعز بن بن کعب بن خزرج بن حابرث بن خزرج القیس بن رج ا

قبولِ اسلام

حضرت ثابت بن قیسؓ مدینہ منورہ کے سب سے معزّز ، مشہور اور بڑے قبیلے ، خزرج کے سرداروں میں سے تھے۔ ذہانت ، فطانت ، فہم و فراست ، علم و حکمت ، شیریں کلامی ، حاضر جوابی ، زورِ خطابت میں اُن کا ثانی نہیں تھا انی نہیں تھا بھاری, بلند, بارعب آواز اور خوب صورت, پراثر تقاریر کا فن تحفۂ خداوندی تھا, جس کا بھرپور کرتے.نیز, وہ مدینے میں اولین ایمان لانے والوں میں سے ایک تھے. بیعت عقبہ اولی کے موقعے پر آنحضرت نے ایک نوجوان حضرت مصعب بن عمیر کو یثرب میں مسلمانوں سفیر اور اسلام کے مبلغ پر بھیجا, جنھوں نے نہایت جوش سے اسلام کی تبلیغ کی. وہ جلد ہی اپنے ایمان افروز خطابات اور مکارمِ اخلاق کی وجہ سے مبلّغ ، معلّم اور اس مشہتور وہت سے مشہتور وہحیثی حضرت ثابت بن قیسؓ اُن کی محفلوں میں بیٹھتے اور قرآنِ آیاتِ کریمہ سُن کر اُن پر غاوروخوض کرےتے ااو وض کرکےتے ،او وض رےتے ، الن مل ر ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع ع مل ع ع ع ع ع صع ع ع صع ع ع صع ع صع ع صع ع ع ع ع ع صع مص ع ع صع ع ع صع صب

! اے تاج دارِ مدینہؐ

امام الانبیاءؐ ، تاج دارِ مدینہؐ ، نبیٔ رحمتؐ ، حضور رسالتِ مآبﷺ ہجرت فرما کر میےوہمریف باب ئے اہلِ انصار کی بچّیاں بڑے ذوق و شوق ، احترام و عقیدت کے ساتھ خُوب صورت اشعار پڑھ رہی تھیں۔ مدینے کی فضا خوشبوئوں سے مہک رہی تھی۔ قبیلہ خزرج کے گھڑ سواروں کا ایک بہت بڑا دستہ ، حضرت ثابت ؓکی زیرِ قیادت دنیا کی سواروں شخصیھ دالامدال ت کے فقیدالاد چت کے دالاد چ ت دالاد ال نتقتقبا اللہ کے رسولؐ اپنے یارِ غار ، صدیقِ ساتھ مدینہ داخل ہوئے ، تو حضرت ثابت بکےن قیاسؓ اہلِ مفصیحن قیاسؓ اہلِ مفصیحی ” ااے الِ مفصیحی ” ا و ب ل د لو لوہ لؐو لو ب لو د لو ب لو د ل وہ لو د لوہ لو ب لوو د لوہ لو ب ہمارے والدین اور ہم آپؐ پر قربان ، ہم اہلِ مدینہ ، کو حاضر ناظر جان کر آپؐ سے عہد ہیںم کہ ہم اا م کور ل انی سو ر ل ر کیا اس کے عوض اللہ ہمیں کسی انعام سے نوازیں گے؟ اللہ کے محبوب, نبیوں کے امام, خلق مجسم, خاتم اللعالمین کے رخ انور پر ایک روح مسکراہٹ آئی اور آپ انعام کا اعلان اہل ایمان کے حصول کی خواہش اور آرزو ہر مسلمان کے لبوں پر دعائوں کی صورت مچلتی رہتی ہے. آپؐ نے فرمایا ” جنّت ”۔ اس اعلان نے اہلِ مدینہ کے چہروں کو خوشی سے منور کر دیا اور وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔

خطیبِ رسول اللہؐ

حضرت ثابت بن قیسؓ کو اللہ نے تقریر و تحریر کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور آآواز بھی بار ۔واز بھی بار پن واز بھی بار س ود پور واز ،ود گور جب بات کرتے ، تو اندازِ تکلّم ، بلندیٔ آواز اور مدلّل گفتگو مخاطب کو بات سُننے پر مجبور کر دیتی۔ خطاب کرتے, تو تقریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا اور روانی, جملوں کی ترتیب و تشبیہات, آواز اتار چڑھائو اس بہتے دریا مانند ہوتا, جو اپنے سامنے آئی ہر بہا لے جاتا پھر سننے والا خطابت کے طلسم میں محو ہو کر جملوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا تقریر کے اختتام پر حضرت ثابت بن قیسؓ کا معتقد ہو جاتا۔ اہلِ مدینہ کی ہر تقریر ، ہر وعظ اور ہر خطاب حضرت ثابتؓ سے شروع ہوتا اور ان ہی پر اختتام ہوتا۔ شروع میں اہل مدینہ نے انہیں”خطیب انصار ” کا خطاب دیا تھا, لیکن جب انہوں نے اپنے آپ کو دین اور خدمت نبوی لیے وقف کر دیا, تو پھر وہ”خطیب رسول ا للہ ” کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔

کاتبِ وحی

حضرت ثابت بن قیسؓ مدینہ منورہ کے پڑھے لکھے لوگوں میں شامل تھے اُنھیں فنِ تقریر کے علاوہ تحریر میں بھی کمال تحا خوش خط ، پختہ ، صاف اور روشن تحریر اُن کی خاص پہچان تھی۔ رسول اللہؐ نے اُنہیں ” کاتبِ وحی ” کے منصب پر فائز فرمایا ، تو وہ خُوب صُورت انداز میں آیا۔تِ مکارکہ گے تاب مکارکہ کی کتنب تنب

حضرت ثابتؓ کی فضیلت

ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد رسول مدینہ منورہ آئے, تو پورے سے لوگ وفود کی کرنے کے لیے جوق جوق آنے لگے, ہی میں یمامہ سے بھی شامل تھا, کی قیادت مسیلمہ کذاب کر رہا تھا. اُس وفد نے مدینے میں 15 روز قیام کیا۔ وفد کے تمام لوگ روزانہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر اور حضرت ابی بن کعب ؓسے قرآنِ کی ا بم لیتےا ا ے ن م بم لتےا ے ن م بر بر اُس نے بہ ظاہر تو اسلام قبول کر لیا تھا ، لیکن وہ بڑا کینہ پرور ، منافق اور متکبّر انسان تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی سادگی ، مسلمانوں کی عاجزی و انکساری اُسے پسند نہ آئی۔ اُس کے ذہن میں تو مسلمانوں کے بادشاہ کا تصوّر قیصر و کسریٰ جیسا تھا ، چناں چہ نے اسلام کو دِلا سے قبول نہ سے قبول نہ ایک دن آنحضرتؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا کہ آج بنو حنیفہ کے وفد سے کریں گے ، پھر آپؐ اُن کی رےائش گاہ تشر اہ تشریف گاہ تشر مسیلمہ بن حبیب کذّاب ، آپؐ سے مختلف سوالات پوچھتا رہا۔ آخر میں آنحضرتؐ نے فرمایا ” اے مسیلمہ! یہ ثابت بن قیسؓ ہیں ، جو میری طرف سے تجھ کو سوالوں کے جواب دیں ” یہ کہہ کر آپؐ نے حضرت ثابت بیفن ،لات ثابت بیفن ،او وہا سوخر دم بت بیفن کےو وہا سوچھر د (

حضرت ثابتؓ کا ولولہ انگیز خطاب

مسیلمہ ، مدینہ منورہ سے اپنے وطن یمامہ پہنچا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ یہاں تک کہ اس نے آنحضرت کو خط لکھا ہیں, لہذا قریش کا اور نصف میرا ایک شخص رجال بن عنفوہ کے ذریعے اس تک پہنچوایا (تاریخ اسلام, اکبر شاہ نجیب آبادی) .آپ کی رحلت کے بعد سیدنا صدیق اکبر نے اس فتنے کی سرکوبی لیے عکرمہؓ بن ابی جہل کو روانہ لیکن وہ شکست کھا گئے۔ اس کے بعد آپؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لشکر دے کر روانہ میں حضرت ثابت بن قیسؓ بھی شامل تھے۔ مسیلمہ کذّاب نے یمامہ میں 40 ہزار سے زیادہ جنگجو جمع کر رکھے تھے۔ جنگ کے دَوران ایک لمحہ وہ بھی آیا کہ کے جنگجو ، مسلمانوں پر بھاری پڑ ایسے میں حضرت نے ایک پُرجوہ اجو ایک پُرجوش ب اور ا گیزرجوخطب اجدور ن ن خطوہب بم ن دو ب

شہادتِ مردِ مومن

دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا ، تو یمامہ کے آ سمانوں نے عزم و اور جذبۂ جہاد کا ایک ایمان اٹ حضرت ثابت بن قیسؓ نے سر سے کفن باندھا ، کچھ اور صحابہؓ کو ساتھ لیا اور بپھرے کی طرح دشمنوں پر حملہ آور ہو حضرت ثابتؓ کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ دشمنوں کی لاشوں کا ڈھیر تنِ تنہا اُن کی صفوں کو چیرتے گئےدُور ت یہاں تک کہ دشمنوں نے اُنہیں چاروں طرف سے گھیر کر شہید کر دیا۔ حضرت ثابت بن قیس کی اس شہادت نے مجاہدین میں شہادت کو بیدار کر دیا اور نے اللہ کی تائید نصرت کے سائے میں متحد نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کی فوج کر اللہ نے فتح نصیب فرمائی. وحشی (حضرت حمزہؓ کے قاتل) نے اپنا نیزہ پھینکا ، جو مسیلمہ کذّاب کی زرہ کو چیرتا ہوا اس کے جسم م ر پپد ار و گین و جنگِ یمامہ ماہ ذی الحجہ 11 ہجری میں ہوئی (تاریخِ اسلام ، اکبر شاہ نجیب آبادی)۔

حضرت ثابتؓ کی خواب میں وصیّت

حضرت ثابتؓ لڑائی کے وقت ایک نہایت نفیس اور عمدہ زِرہ زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ جب شہید ہو گئے ، تو کسی نے اُن کے جسم سے زِرہ اُتار کر اپنے خیمے میں چُھپا لی۔ شہادت کی دوسری رات, ایک شخص کے خواب میں حضرت ثابت آئے فرمایا”میں ثابت بن قیس ہوں, کیا نے مجھے پہچان لیا? ” وہ بولا”ہاں. ” حضرت ثابت نے فرمایا”میں تجھے ایک کر رہا ہوں ، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تُو اسے خواب جان کر خاطر میں نہ لائے۔ جب کل ​​میں شہید کر دیا گیا ، تو فلاں شخص میرے پاس سے اور میری زِرہ اُتار کر اپنے خیمے میںم لے گیع ا،ا ، س کا خیم اُس شخص نے میری زِرہ اپنی دیگ میں رکھ کر اُس کے اوپر اونٹ کی کوہان پر رکھے والے لکڑے رکھ دیے ہیں۔ تم خالد بن ولیدؓ کے پاس جائو اور اُن سے کہو کہ اس شخص سے زِرہ حاصل کر لیں۔ مَیں تمہیں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور دوبارہ متنبّہ کرتا ہوں کہ اسے خواب سمجھ کر ضائع نہ کرنا۔ خالدسے کہنا کہ جب تم مدینہ منورہ پہنچ کر خلیفۃ سے ملو, تو ان سے کہنا ثابت بن قیس پر اتنا قرض اور فلاں, فلاں میرے ہیں, لہذا میرے قرض کی ادائی کر دیں. ” وہ شخص نیند سے بیدار ہوا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو ، جو کچھ دیکھا اور سُنا تھا ، کہہ سُنایا۔ تمام باتیں سن لینے کے بعد حضرت خالد بن ایک صحابی کو زرہ لانے لیے بھیجا اور وہ کی ہوئی جگہ پر گئی.جب حضرت خالد منورہ لوٹ کر آئے, حالات کہہ سنائے حضرت ثابت بن قیس کی خواب میں کی گئی وصیت سے بھی آگاہ کیا, جس پر صدیق اکبرؓ ​​نے وصیّت پوری کر دی۔ اللہ ، حضرت ثابت بن قیسؓ سے راضی ہوااور وہ اس سے راضی ہوئے اللہ نے اُن کا ٹھکانہ اعلیٰ عیینااا علپ عیین ااا پلپ عییلن اا ل لب وا بنم رع ع بنم رع




Supply hyperlink

About admin

Check Also

شہیدِ منبرومحراب سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ

محمد عبدالمتعالی نعمان امیر المومنین, خلیفہ دوم, مراد پیمبر, عشرۂ مبشرہ کے بزم فاروق اعظم, …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *